بے نظیر، مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم

پیر 28 دسمبر 2020

Waris Bin Azam

وارث بن اعظم

21 جون، 1953ء کو بھٹو خاندان میں ایک لڑکی پیدا ہوئی، جسے آج سب مسلم  دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم، شہید جمہوریت، دخترِ پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے جانتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو پہلی بار 1988 میں وزیر اعظم منتخب ہوئیں، اگست 1990ء میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی۔ 2 اکتوبر 1990ءکو ہونے والے انتخابات میں نواز شریف وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

بدعنوانی کے الزام میں نواز شریف حکومت کو بھی برطرفی کا منہ دیکھنا پڑا۔پھر اکتوبر 1993ء میں بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کی حقدار ٹھہریں لیکن جمہوریت دشمنوں کی سازشوں کے سبب 1996ء میں پیپلز پارٹی رہنما فاروق لغاری نے صدر کی حیثیت سے بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل اور بدامنی کے الزامات کے تحت ان کی حکومت کو برطرف کردیا۔

(جاری ہے)

سیاسی ماحول میں بے جا پیچیدگیوں کے سبب محترمہ نے 1998ء میں  جلاوطنی اختیار کی جس کے بعد وہ 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو  اپنے کاروان کے ساتھ شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہی تھیں کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 150 سے زائد افراد  موت کی نیند سو گئے جبکہ سیکڑوں زخمی ہو گئے۔

قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر بھٹو کو اللہ نے زندگی بخشی اور انہیں بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ اس شدید حملے اور بے جا دھمکیوں کے باوجود بھی دُختر مشرق نے اپنی جدوجہد جاری رکھی لیکن پھر 2 ماہ 9 دن بعد 27 دسمبر 2007 راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے اختتام پر گاڑی پر نکلتے ہوئے ان پر حملہ ہوا جس میں وہ شہید ہوگئیں۔
وہ خوب آشنا تھی شہادت کے لفظ سے
سر کو کٹا دیا اس نے جھکنے نہیں دیا
27 دسمبر 2007 کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے لیاقت باغ میں کی گئی اپنی آخری تقریر جس میں شہید قائد کی پنکی نے کہا تھا کہ زندگی ایک دن کی ہو اور شیر کی ہو کے الفاظ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔


محترمہ بے نظیر بھٹو بے شمار اعزازات سے نوازی گئیں۔ انہیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر خود ان کےکردار، شخصیت، قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر سراہا گیا۔
آج بھی بینظیر کو سُنہرے الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے۔ دورِآمریت میں زبردستی ہزاروں مزدوروں کو نوکریوں سے محروم کردیا گیا اوراپنے من پسند افراد کی تعیناتیاں کی گئیں جس کے خلاف عملی قدم اٹھاتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے 40 ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمتوں پر بحال کیا۔

انسانی حقوق محفوظ بنانے کیلئے وزارتِ انسانی حقوق بنائی۔ آزادی صحافت کیلئے میڈیا سے سینسر کا خاتمہ بھی بے نظیر بھٹو کے دور میں ہوا۔ انسدادِ پولیو مہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی۔ پاکستان اسٹیل ملزکو منافع بخش ادارہ بنایا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے سن 1994 میں ایک نئی پاور پالیسی کا اعلان کیا۔ قومی کمیشن برائے خواتین کے نام سے ادارے کا قیام بے نظیر بھٹو کے دور میں عمل میں لایا گیا۔

شہروں میں لیبر کالونیز بنائی گئیں تاکہ محنت کش افراد وہاں رہائش اختیار کرسکیں۔
آج مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہم میں نہیں لیکن اس کا نظریہ زندہ ہے، اس کی جدوجہد زندہ ہے۔ آج بھی محترمہ کے جیالے جدوجہد کی علامت ہیں، مُلکی سیاست میں آج بھی محترمہ کی جماعت کو ایک مقام حاصل ہے۔ بے نظیر کے بچے آج ان کی جدوجہد کا علم تھامے میدان میں مصروفِ عمل ہیں، بیٹے کے ساتھ ساتھ محترمہ کی چھوٹی بیٹی آصفہ  کا بھی میدانِ سیاست میں آنا ان کے قاتلوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ
دیکھو اے قاتلِ جمہوریت پھر نظیر آگئی
مرے دیش کو بچانے دخترِ بے نظیر آگئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :