ایک ساتھ تین لاشیں ، کون ذمہ دار ہے میرپورخاص واقعے کا

بدھ 18 ستمبر 2019

Waris Bin Azam

وارث بن اعظم

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، گزشتہ ہفتے کے روز ہوا سندھ کے ضلع میرپورخاص میں ایک اندوہناک واقعہ، واقعہ ایسا کہ انسانیت ہی رو پڑے جس نے سنا روپڑا، جذباتی ہوگیا ، واقعہ ہی کچھ ایسا تھا، سندھ کے ایک بڑے شہر میرپورخاص کے سول اسپتال میں دو سالہ بچہ موہن ہلاک ہوگیا تھا، بچے کے ورثاء کی رہائش شہر سے کچھ فاصلے پر قائم گاوٴں اصغر درس میں تھی، بچہ تو ہلاک ہوگیا تھا اب اس کی میت گھر لے جانا تھی سو اس کا والدکیول بھیل اور چچا رمیش بھیل ایمبولینس کی تلاش میں لگ گئے کہ بچے کی میت کو گھر لے جایا جائے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھٹکتے رہے، اسپتال انتظامیہ نے پہلے تو ایمبولینس دینے سے صاف انکار کردیا ، پھر ایمبولینس ڈرائیور کے سامنے متاثرہ افراد نے ہاتھ پاؤں جوڑے تو جواب دیا گیا کہ ایمبولینس کے فیول کی مد میں دو ہزار دیے جائیں، یہ غریب لوگ تھے کچے گھر میں رہتے تھے ، بچے کو پتا نہیں کس طرح علاج کے لیے سرکاری اسپتال لائے تھے، کس طرح دوائیاں خرید کر اس کا علاج کروارہے تھے، ان لاچار افراد کے پاس دو ہزار نہیں تھے انہوں نے ہاتھ پاؤں جوڑے لیکن ایمبولینس نہ دی گئی، مجبور ہوکر یہ لوگ بچے کی لاش کو ایک کپڑے میں ڈھانپ کر موٹر سائیکل پر ہی اپنے گاؤں کی جانب روانہ ہوئے ، یہ گاؤں کی طرف نکلے ہی تھے، ان کے دل معصوم بچے کے انتقال کے بعد ویسے ہی غمگین تھے یہ والد اور چچا سوچ رہے تھے کہ بچے کی ماں کا سامنا کیسے کریں گے، ان کے ذہن میں تدفین کے مراحل میں ہونے والے اخراجات کی رقم بھی گھوم رہی تھی اسی اثناء میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا ، میرپورخاص کھپرو روڈ پر کاٹن فیکٹری کے قریب تیز رفتار مزدا ٹرک ان پر چڑھ دوڑا، حادثے میں بچے کے والد اور چچا دونوں ہلاک ہوگئے، انتقال کرجانے والا بچہ بھی کچلا گیا، ایک ساتھ تین لاشیں گھر پہنچیں۔

(جاری ہے)


وہ ماں جو اپنے اس بچے کی آس لگائے بیٹھی تھی کہ اس کے لخت جگر کو اُس کا چچا اور والد علاج کے لیے شہر کے بڑے اسپتال لے کر گئے ہیں وہ علاج کے بعد بخیر عافیت لوٹے گا وہ ماں اپنے لکڑیوں اور جھاڑیوں سے بنے کچے گھر کے دروازے پر آس لگائے بیٹھی تھی اسے کیا پتا تھا کہ اس کی زندگی ہی اجڑ گئی ہے اس کے بچے کے ساتھ ساتھ اس کا شوہر اور دیور بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں، اسے ابھی کچھ پتا ہی نہیں تھا ، وہ تو اپنے بچے کا انتظار کررہی تھی ، اسی اثناء میں ایمبولینسیں آئیں یہ وہ ہی ایمبولینسیں تھیں جن سے بچے کے والد اور چچا گڑگڑا کر مدد مانگ رہے تھے کہ اس کے بچے کی میت گھر پہنچا دی جائے کیا پتا تھا بچے کی لاش گھر لے جانے کے لیے ان دونوں کو بھی مرنا تھا۔


ایک ساتھ تین لاشیں گھر پہنچیں ہر کوئی سکتے میں آگیا، ہر آنکھ اشکبار تھی، ہر کوئی رورہا تھا ، فرط جذبات میں آنسو لگاتار بہہ رہے تھے ، ہر طرف کہرام برپا تھا، اس سے بڑھ کر اور کیا قیامت ہوسکتی تھی۔
واقعہ میڈیا پر اٹھا پورے ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلا ، پھیلنہ بھی تھا یہ اس دن کا سب سے بڑا واقعہ تھا وزیر اعلی سندھ بھی جاگے چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ کے حکم اور ڈی جی ہیلتھ سندھ کی رپورٹ پر ایم ایس سول اسپتال میرپورخاص ڈاکٹر محمداسلم میمن اور سول سرجن ڈاکٹر خلیل میمن کو معطل کردیاگیا۔


میرپورخاص کے ٹاوٴن تھانے پر رمیشن اور کیول کے والد کھیموں بھیل نے مقدمہ درج کروایا، مقدمہ سول اسپتال انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، مقدمے میں ایم ایس ڈاکٹر اسلم انصاری، سول سرجن ڈاکٹر خلیل میمن، ڈیوٹی ڈاکٹر عادل اورایمبولینس ڈرائیور کو نامزد کیاگیا، مقدمہ میں فریادی کی جانب سے مئوقف اپنایا گیا کہ ایم ایس اسپتال، سول سرجن سمیت چاروں افراد کی غفلت اور نااہلی کے باعث حادثہ رونما ہوا ہے۔


ملکی میڈیا میں واقعے کو مسلسل اجاگر کرنے پر انکوائری کے لیے ڈی جی ہیلتھ سندھ کی جانب سے دو رکنی کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی متاثرہ افراد کے گاؤں پہنچی اور ورثاء سے معلومات اکھٹا کیں، کمیٹی سول اسپتال بھی گئی جہاں نامزد چاروں ملزمان سول سرجن ، ایم ایس ، ڈیوٹی ڈاکٹر اور ایمبولینس ڈرائیور کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے وہ فرار ہوچکے تھے، جس کے بعد کمیٹی واپس روانہ ہوگئی۔


کمیٹی نے اپنی رپورٹ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کو ارسال کردی، رپورٹ میں کہاگیا کہ دوسالہ موہن کو گیارہ ستمبر کی رات آٹھ بجے اطفال وارڈ لایا گیا جوکہ ڈائریا میں مبتلا تھا اوراس کی حالت نازک تھی، جہاں اسے طبی امدا دفراہم کی گئی لیکن دوران علاج تیرہ ستمبر کی دوپہر دوبجے بچے کو اس کے والد بغیرکسی اطلاع یااجازت کے وہاں سے لے گئے تاہم حالت بگڑنے پر بچے کو اسی روزپھر دوبارہ رات دس بجے اطفال وارڈ لے آئے تاہم بچہ جانبرنہ رہ سکا اور چودہ ستمبر کی علی الصبح ساڑھے تین بجے انتقال کرگیا۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت کی مریض کو منتقلی کے لیے فیول کی فراہمی اسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری تھی لیکن میڈیکل آفیسر ایمبولینس کو فیول فراہم کرنے میں ناکام رہے جبکہ ایمبولنس ڈرائیور نے لواحقین سے فیول کے لیے پیسے طلب کیے، رپورٹ میں اس پورے معاملے میں غفلت برتنے پر ایم ایس اسپتال ڈاکٹر اسلم انصاری سمیت سول سرجن ڈاکٹر خلیل میمن، گیٹ پاس اور ڈیتھ سرٹیفیکٹ جاری نہ کرنے پر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر جاوید جروار سمیت واقعے کی اطلاع انتظامیہ کو نہ دینے پر سی ایم او ڈاکٹر عادل کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔


واقعے کی رپورٹ پیش کردی گئی ہے ، اب اس پر عمل ہونا چاہیے ، ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے، غفلت کے مرتکب افراد کو نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ ایسا وزاقعہ رونما نہ ہو۔ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیت کی نمائندگی کرتا ہے، ہمیں اس رنگ کی لاج رکھنی ہوگی، یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ متاثرہ افراد کا تعلقق اقلیتی بھیل برادری سے تھا اسی لیے انہیں مطلوبہ سہولیات فراہم نہیں کی گئیں، اس تاثر کو بھی ختم کرنا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :