اور ہمیں پھر کشمیر یاد آیا تھا

بدھ 5 فروری 2020

Waris Bin Azam

وارث بن اعظم

پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر پاکستان بھر میں بھرپور جوش و خروش سے منایا گیا ملک بھر میں جگہ جگہ احتجاج، ریلیاں، جلوس، مظاہرے، سیمینار، کانفرنسیں منعقدہ ہوئیں، پڑوسی ملک کے جھنڈے نذر آتش کئے گئے، بچوں کو کفن پہنا کر ریلیوں میں لایا گیا، ملک کی زمینوں کو بھارت کے ترنگے سے رنگا گیا، پھر اس پر جوتے رکھے گئے، گاڑیاں گزاری گئیں، تھوکا گیا، جذباتی نعرے لگائے گئے، سیلفیاں بنوائی گئیں، اپلوڈ کی گئیں، پھر کیا ہوا ؟ دن ختم ہوا اور ہم بھول گئے کشمیر کو،اب ایک سال بعد دیکھیں گے جب پانچ فروری آئے گا تب تک کے لئے؟
کشمیر کیا ہے؟ کشمیر ڈے پر چھٹی کے باعث خلاف معمول گھر کے باہر کھڑا تھا ساتھ ہی پتھارے پر کچھ محلے کے افراد بیٹھے ہوئے تھے جن میں دو نوجوان ایک پکی عمر جبکہ دو بزرگ تھے وہ کشمیر کے حوالے سے بحث و مباحثے میں مصروف تھے تو نہ چاہتے ہوئے بھی قدم ان کی جانب بڑھ گئے، سلام دعا کے بغیر بحث میں شامل ہوتے ہوئے میں نے یکدم ان سے سوال کیا کہ کشمیر کیا ہے تو ان افراد میں شامل ایک نواجوان بلکل جھگڑنے والے انداز میں بولے کشمیر ہماری شہ رگ ہے، ان کا جملہ ختم ہوا تو دوسرا نوجوان بولا کشمیر ہماری جان ہے، ان صاحب کے رکتے ہی ایک ادھیڑ عمر بزرگ جو ستر کی عمر سے زیادہ ہی لگ رہے تھے لپک کر بولے کشمیر کے لئے ہم اپنی جان دینے کو بھی تیار ہیں، تواتر سے جذباتی جوابات سن کر میں نے خیر اس میں ہی سمجھی کہ ان کی باتوں پر سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جواب دینے والے ان تمام افراد کا جذبہ قابل دید تھا، ان ہی سوچوں میں مگن چلتے چلتے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر موجود پریس کلب پہنچا تو سامنے مختلف سیاسی، سماجی، دینی، کاروباری اور دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے سامنے پایا، وہ ٹولیوں کی شکل میں بینرز ، پاکستانی پرچم سمیت مختلف سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے پکڑے کھڑے تھے، قریب جاکر معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ پریس کلب پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے جمع ہوئے ہیں اورکوریج کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، بات چل ہی رہی تھی کہ ایک نجی چینل کے مقامی صحافی کی تیز آواز کی جانب توجہ مرکوز ہوگئی، وہ محترم فرمارہے تھے کہ پانچ منٹ ہیں سب کے پاس جمع ہوتے جاؤ، کوریج کروالو، اس آواز کی گونج کے ساتھ ہی ایک افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا اور موجود افراد کچھ کچھ فاصلے پر ٹولیاں بنا کر جھنڈے اور بینر کھول کر کھڑے ہوگئے، فوٹوگرافرز اور کیمرا مین ایک ٹولے کی کوریج کرتے پھر وہ چلا جاتا پھر دوسرا اس کی جگہ لیتا اس کی کوریج ہوتی یوں یہ قصہ چلا، سورج ڈھلتے ہی کچھ افراد نے شمعیں روشن کیں جس کے بعد سب چلتے بنے،یوں کشمیر ڈے ختم ہوگیا ۔

(جاری ہے)

ذہن میں تواتر سے سوالوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا کہ کیا یہی حق تھا ہمارا کشمیریوں کے لئے، کیا ایک دن کا احتجاج کافی ہے، کیا سرکاری چھٹی کرنا، سیمینار منعقد کرنا، چینلوں پر ایک روز کے لئے کشمیر کی بات کرنا پھر بھول جانا کیا بس یہ کشمیر ہے ؟ کیا اس سے ادا کردیا ہم نے بندوقوں سے چھلنی ہوکر موت کی وادیوں میں جانے والے کشمیریوں کا حق؟ کیاہوگیا حق ادا برہان وانی کی شہادت کا ؟ کیا نہتے کشمیریوں پر بیلٹ گنوں کے استعمال کو ہم بھول گئے ہیں؟ کیا مل گئی کشمیر کو آزادی؟ ہمیں سوچنا ہوگا ، کشمیر میں بہتے خون کا ہمیں سوچنا ہوگا ۔


آج وہ کشمیر ہے کہ محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
بھارت اپنے تماتر مظالم اور ریاستی جبر کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ختم نہیں کر سکا، کشمیریوں کا یقین ہے کہ شکست غاصب بھارت اور آزادی مظلوم کشمیریوں کا مقدر بنے گی۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ زبانی دعوؤں کے بجائے کشمیر کی آزادی کے لیے سیاسی اور سفارتی سطح پر مضبوط اور منظم آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی اقدامات کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :