
مستقبل کے معمار اور نقل مافیا
پیر 23 ستمبر 2019

وارث بن اعظم
(جاری ہے)
امتحان مطلب اپنے آپ کو منوانا، کامیاب ہونا، اگر اس کامیابی اور خود کو منوانے میں غلط راہ کا انتخاب کیا جائے تو وہ دوسروں کے لیے تو بہتر ہوگا پر خود کے ضمیر اور قابلیت پر ہمیشہ کے لئے ایک سوالیہ نشان بن جائے گا، ہمارے سماج میں قابلیت سے زیادہ گریڈکو اہمیت دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہر بچہ حتٰی کہ اس کے والدین کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ گریڈ بہتر سے بہتر بنے اور اس ہی سوچ کی بناء پر وہ ہر حد تک یہاں تک کہ رشوت کا سہارہ لینے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں، ہمارے معاشرے کا بچہ کچھ سیکھنے کی لگن سے نہیں پڑھتا، بلکہ نوکری کے حصول کے لئے پڑھتا ہے، بچے کی شروع میں ہی اس طرح سے پرورش کی جاتی ہے کہ اس کا حصول تعلیم نہیں نوکری بن جاتا ہے اور شاید ہماری قوم بھول گئی ہے کہ جب تعلیم کا حصول نوکری ہوگا تو نوکر ہی پیدا ہوں گے لیڈر نہیں۔
امتحان کا مقصد طالب علم کی قابلیت کو جانچنا ہوتا ہے اور اس میں نقل کے ذریعے ایک نااہل، کام چور اور کاہل شخص ایک محنتی پر ترجیح حاصل کرکے اُسے اور خود کوبھی دھوکا دیتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے یہ کبھی نہیں مرتا اور گھوم کر اس فرد کے پاس دوبارہ پہنچ جاتا ہے کیونکہ اسے اپنے ٹھکانے سے بہت محبت ہوتی ہے، دھوکے کے حوالے سے نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص ہم کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں موجود خامیوں سے ہم سب واقف ہیں امتحانات شروع ہونے سے قبل حل شدہ پرچہ جات کی خرید و فروخت بھی اپنے بام عروج پر پہنچ جاتی ہے مذکورہ پرچہ جات ایک چھوٹی کتاب کی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں جو کہ ایک شاگرد کی عام سی جیب میں ہی سما جاتا ہے، اس عمل پر بھی کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے، امتحانات ہمارے معاشرے میں خود کو منوانا یا اپنی قابلیت جانچنے کی جگہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگئے ہیں اور یہ عمل ہمارے حکمرانوں پر بھی سوالیہ نشان ہے، ہمارے مستقبل کے معمار جو نقل کے دلدل میں گرتے جارہے ہیں اس کی ذمیداری حکومت، اساتذہ اور بچوں کے والدین پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ جس عمارت کی بنیاد ہی کچی ہوگی تو اس نے آگے جا کر گرنا ہی ہے، مستقبل کے معماروں کو اس دلدل سے بچانے کے لئے شعور کے ساتھ ساتھ ٹھوس عملی اقدامات کی بھی اشد ضروت ہے۔
امتحانات میں تقل کے معاملے پر صوبہ سندھ سرفہرست ہے، سندھ بھر میں نویں دسویں، گیارہویں بارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں نقل کی خبریں تواتر سے سامنے آتی رہتی ہیں، صوبہ بھر میں امتحانات کے دوران تمام تردعوؤں اور انتظامات کے باوجود پرچے وقت سے قبل امتحانی مراکز سے باہر آجاتے ہیں جو کہ واٹس ایپ گروپس میں آسانی سے میسر رہتے ہیں، تعلیمی حکام اور انتظامیہ نقل کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام ہے، طلباء موبائل فونزسمیت نقل کے دیگر ذرائع سے پرچے حل کرتے رہتے ہیں جبکہ سندھ کے کچھ شہروں میں متعلقہ پرچے کی جگہ دوسرے روز کا پرچہ پہنچانے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں، امتحانی مراکز کی حدود میں غیر متعلقہ افراد کی آمد پر مکمل پابندی کے باوجود بوٹی مافیا پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے تاکہ مستقبل کے ان معماروں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
وارث بن اعظم کے کالمز
-
بے نظیر، مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم
پیر 28 دسمبر 2020
-
اور ہمیں پھر کشمیر یاد آیا تھا
بدھ 5 فروری 2020
-
مولانا کا مارچ
منگل 15 اکتوبر 2019
-
پی ایس 11 الیکشن، چاپلوسی جیت گئی
پیر 30 ستمبر 2019
-
ویکسین نہ ملنے سے مرتے بچے
بدھ 25 ستمبر 2019
-
مستقبل کے معمار اور نقل مافیا
پیر 23 ستمبر 2019
-
ایک ساتھ تین لاشیں ، کون ذمہ دار ہے میرپورخاص واقعے کا
بدھ 18 ستمبر 2019
-
میرے بھوکے پیاسے تھر میں زندگی لوٹ آئی
پیر 16 ستمبر 2019
وارث بن اعظم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.