مولانا کا مارچ

منگل 15 اکتوبر 2019

Waris Bin Azam

وارث بن اعظم

مولانا فضل الرحمن جسے بارہواں کھلاڑی کہا جاتا ہے وہ اب فرنٹ فٹ پر آچکے، جمعیت کے اعلانیہ اسلام آباد مارچ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مولانا کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں، مولانا فضل الرحمٰن سینئر سیاست دان ہیں، ان کو ادراک ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پاکستان میں کس طرح کام کرتے ہیں اور ان کی کیمسٹری کیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) انکے مارچ میں شرکت کریں یا نہ کریں لیکن وہ اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں، دونوں پارٹیاں جانتی ہیں تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہونے والے کو سیاسی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
جمعیت کے مطابق آزادی مارچ ستائیس اکتوبرکوصبح دس بجے ملک کے صوبائی دارلحکومتوں سے روانہ ہوگا او ر اکتیس اکتوبر کو سب ڈی چوک اسلام آباد پر اکھٹا ہوں گے، جمعیت علمائے اسلام کی چاروں صوبوں کی تنظیموں نے مولانا فضل الرحمان کو اپنے صوبے سے مارچ کی قیادت کی درخواست کی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان سندھ سے نکلنے والے آزادی مارچ کی قیادت کریں گے۔

(جاری ہے)

سندھ سے نکلنے والی مارچ کی قیادت سے مولانا کو دو فائدے ہیں ایک تو سندھ کی صوبائی حکومت نے مولانا کو بھرپور تعاون کا نہ صرف یقین دلایا ہے بلکہ ہر طرح کی مدد کا بھی کہا ہے، سندھ کی جگہ کسی اور صوبے سے مارچ کی قیادت میں امکانی طور پر مولانا کو دو نقصان ہوسکتے ہیں کیونکہ سندھ کے علاوہ دیگر دو صوبوں میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حمایت یافتہ جماعت کی حکومت ہے تو مارچ کو بھرپور طریقے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی اوردوسرا یہ کہ مولانا کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے، سندھ سے نکلنے کی صورت میں ایک تو مولانا کو مارچ سے قبل سندھ حکومت کی جانب سے گرفتاری کا خطرہ نہیں دوسرا یہ کہ پنجاب میں داخل ہونے سے قبل مارچ ایک بھرپور زور حرکت میں آچکا ہوگا۔


مولانا کے مارچ کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، حکومتی بوکھلاہٹ بھی اس ہی قدر بڑھ چکی ہے، وفاقی وزراء فواد چوہدری ہو یا فردوس عاشق اعوان ، وزیراعلی خیبر پختونخواہ یا ترجمان پنجاب ہوں یا پھر گورنر سندھ سمیت دیگر اراکین اسمبلی ہر کسی پر مولانا کا مارچ سوار ہے۔
عوام بھی بلکل نہیں تو کچھ کچھ حکومتی پالیسی سے نالاں ہونا شروع ہوگئے ہیں، حکومتی جماعت نے عوام کو الیکشن سے قبل سہانے خواب دکھائے تھے، بڑے بڑے وعدے کیے تھے، لیکن وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوجائیں۔


مولانا کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے قوم کو کٹے، مرغی اور انڈے تک پہنچانے کے بعد اب لنگر خانے تک پہنچا دیا ہے، اگر یہ وزیراعظم مسلط رہا تو خدشہ ہے کہ یہ کہیں قوم کو یتیم خانے تک نہ پہنچا دیں۔جمعیت علماء اسلام کے نظریے کے مطابق ان کی جانب سے سول نافرمانی کی کال یا گیس و بجلی کے بل نہیں جلائے جائیں گے لیکن وہ اس وقت تک اسلام آباد میں موجود رہیں گے جب تک یہ حکومت گھر نہیں چلی جائے گی۔

مولانا دو ٹوک انداز میں کہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی ملکی ادارے سے تصادم نہیں چاہتے ہیں، اداروں کو بھی نیوٹرل رہنا چاہیے۔
مولانا کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں اور یہ ایک حقیقیت ہے، مارچ کے لیے کسی کی فنڈنگ کی بھی ضرورت نہیں، چار روز قبل جمعیت کے ایک اہم رہنما نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکتیس لاکھ افراد نے شرکت کے لیے فارم بھرا ہے اور اس مارچ کی مد میں ہر ایک سے صرف ایک سو روپے مانگے گئے تھے اور اگر صرف سو روپے کا ہی حساب لگایا جائے تو پھر اکتیس کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔


مولانا بیٹنگ کے لیے تیار ہیں ، اس بار وہ فرنٹ پر بیٹنگ کرنا چاہتے ہیں، پریکٹس بھی بھرپور کررہے ہیں اب یہ وقت بتائے گا کہ وہ چھکے مارتے ہیں یا میچ سے قبل انجرڈ ہوجاتے ہیں، لیکن ایک بات واضح ہے جس طرح کی صورتحال ہے اشارے اچھے نہیں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :