میاں بیوی کی محبت نفرت میں کیوں بدل جاتی ہے؟

جمعہ 13 اگست 2021

Waseem Akram

وسیم اکرم

شوہر اور بیوی کی محبت نفرت میں کیوں بدل جاتی ہے۔۔۔؟ میاں بیوی کے اور ان کے حقوق سے متعلق کچھ باتیں ذہن میں آئی ہیں یہ معاملہ چونکہ بہت ہی نازک ہے اس لیئے کوشش کروں گا اس پر وضاحت سے کچھ لکھ سکوں۔ یہ وہ رشتے ہیں اگر ان میں محبت باقی نہ رہے تو زندگی کی رنگینیاں ختم ہوجاتی ہیں اور گھر کی خوشیاں پھیکی پڑ جاتی ہیں۔۔۔
گھر میں موجود بیوی اگر کسی معاملے میں شوہر کی حوصلہ افزائی نہیں کررہی یا پھر شوہر اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی نہیں کررہا یا دونوں مل کر اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی اور بہترین پرورش نہیں کر رہے تو گھر کی تمام خوشیاں ادھوری رہ جاتی ہیں۔

میں نے اکثر سنا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور لباس کا کام ہوتا ہے حفاظت کرنا۔

(جاری ہے)

لباس ہمیں ننگے پن سے محفوظ رکھتا ہے، لباس ہمیں گرمی سے بچاتا ہے، لباس ہمیں سردی سے بچاتا ہے، لباس ہمیں بارش، طوفان اور آندھی سے بچاتا ہے چاہے وہ طوفان گرد کا ہو مٹی کا یا ریت کا تو لباس انسان کیلئے ایک مضبوط اور محفوظ سہارا بن جاتا ہے۔۔

۔ اسی لیئے اللہ تعالٰی نے بھی میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس فرمایا ہے۔۔۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس اس لیئے بھی ہیں کہ بعض اوقات شوہر کی طرف سے اس کے بھائی، بہن اور کوئی اور قریبی رشتے دار اسکی بیوی کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شوہر پر لازم ہے اپنی بیوی کا لباس بنے اور اسکی حوصلہ افزائی کرے۔۔۔ اسی طرح کچھ گھروں میں بیوی کی طرف سے بھی اپنے بہن بھائیوں اور رشتے داروں کی طرف سے شوہر کی حوصلہ شکنی کی جاتی تب بیوی پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کا دفاع کرے اور اسکی حوصلہ افزائی کرے۔

۔۔ لیکن میرے کہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بیوی کے کہنے پر یا پھر شوہر کے کہنے پر اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے خلاف ہوجاو اور گستاخی شروع کردو بلکہ دونوں طرف رشتوں میں اعتدال لانے کی کوشش کرو اور منفی رویوں کو ختم کرکے مثبت سوچ لاؤ اور پہلے سے زیادہ ان رشتوں کو عزت احترام اور محبت دو کہ وہ منفی رویے مثبت ہوجائیں۔۔۔
عربوں میں تو یہ رواج بن گیا ہے کہ عورت کی شادی اس وقت تک نہیں کی جاتی جب تک اسے مرد ایک الگ گھر نہ بنا کر دے اور الگ گھر کی طاقت ہر بندہ نہیں رکھتا لیکن پھر بھی وہاں کرائے پر گھر لے لیا جاتا ہے تاکہ وہاں صرف شوہر اور بیوی رہیں اور بیوی اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ اسکے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی نوکرانی بن کر نہ رہے خیر یہ انکی سوچ لیکن ہمارے ہاں فیملی سسٹم ہے اور یہ بھی اپنی جگہ بہترین ہے کیونکہ انسان ہر وقت کسی نا کسی کا محتاج ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں وہ نہیں ہونا چاہیے جو آجکل ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے کہ ساس ایک عجیب رشتہ بن گیا اور سسر اس سے بھی عجیب رشتہ بن گیا اسی طرح جیٹھ جٹھانی یہ سب بہت خوبصورت رشتے ہوا کرتے تھے لیکن آجکل بہت ہی بھیانک اور خطرناک رشتے بن چکے ہیں۔

۔۔
اخلاقی قدریں نہ ہونے کی وجہ سے اور اللہ کے محبوب کی معاشرت کو نہ جاننے کی وجہ سے رشتے کمزور پڑ رہے ہیں اور شریعت نے اس بات کی تائید کی ہے جو عربوں میں ہورہا ہے کہ خاوند کا یہ حق ہے کہ عورت کو الگ گھر دے اگر بیوی یہ مطالبہ کرے اور خاوند یہ توفیق اور استعداد رکھتا ہو تو یہ خاوند کی ذمہ داری ہے اور اس گھر میں خاوند اور بیوی رہیں اور خاوند پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کیلئے خود جائے اور اگر بچی کے ماں باپ ہیں تو یہ بچی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کیلئے خود جائے۔

۔۔ اکثریت ایسی ہے جو الگ گھر نہیں لے سکتی تو شریعت نے اس کیلئے یہ قاعدہ بنایا ہے کہ ایک کمرہ ایسا ہو جو صرف اسکی بیوی کا ہو اور ایک الگ باتھ روم جو اس کے علاوہ صرف اسکا خاوند استعمال کرتا ہو اور ایک الگ کچن لیکن بہت سے لوگ الگ کچن کی بھی توفیق نہیں رکھتے تو وہ الگ چولہا دینے کے پابند ہیں۔۔۔ ازخود خوشی سے کوئی اکٹھا رہنا چاہے تو اس سے اچھی بات تو ہوہی نہیں سکتی لیکن اگر بیوی ایک ساتھ نہ رہنا چاہے تو خاوند کے ذمہ داری ہے یہ سب کچھ پورا کرنے کی کیونکہ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو آگے جاکر فساد کا سبب بنتی ہیں تو شریعت نے اسکا سدباب کیا ہے کہ کمرہ الگ دو اور کچن باتھ روم الگ دو تو بہت سی رنجشیں ختم ہوجائیں گی اور یہ بیوی کے بنیادی حقوق میں سے بھی ہیں اگر وہ مطالبہ کرتی ہے تو یہ کوئی ناجائز مطالبہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اسکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی بات ہے۔

۔۔ جس رشتے میں جتنے کوئی خارجی رشتے کم داخل ہونگے تو اتنا یہ رشتہ مضبوط ہوگا اور جتنی آپ باہر کی باتیں سنو گے اتنی آپکی تلخیاں بڑھتی رہیں گی، محبت نفرت میں تبدیل ہوتی رہی گی۔ اگر کچھ سن بھی لو تو پہلے آپ اپنی بیوی سے ضرور پوچھ لیا کرو اور اگر بیوی بھی باہر سے کچھ سن لے تو پہلے اپنے خاوند سے ضرور پوچھ لیا کرے کیونکہ اس میں نوے فیصد جھوٹ ہوتا ہے یا پھر غلط فہمی لیکن ہمارے معاشرے میں بات کی تحقیق کیئے بغیر ہی سنی سنائی باتوں پر ہی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور دوسروں کی باتوں میں آکر اپنے گھر تباہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔

ایسے کتنے گھر ہیں جو اپنے اخلاق کی وجہ سے بچائے جاسکتے ہیں بس آپ اپنے بولنے کے انداز کو سیدھا کرلیں مسکرا کر بات کرنا سیکھ لیں، تلخیاں اپنے اندر برداشت کرلیں کبھی بیوی برداشت کرلے تو کبھی خاوند۔۔۔ اللہ تعالٰی ہم سب کے گھروں کو خوشیاں دے اور آپس کی محبت کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور پورے ملک کو محبت کا گلستان بنا دے۔۔۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :