پاکستان، ترکی اور 2023

ہفتہ 25 ستمبر 2021

Waseem Akram

وسیم اکرم

یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عالم اسلام کو اس وقت کن مشکلات کا سامنہ ہے اور کونسے اسلامی ممالک اقوام عالم کے خطرات کو بھانپتے ہوئے اپنے نئے اتحاد کی جانب گامزن ہیں۔ ترکی، پاکستان، مغربی ممالک اور عرب 2023 کیلئے کیا تیاری کررہے ہیں اور دنیا کس طرف جارہی ہے اس سے متعلق اپنے علم کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔

۔۔
وہ کہانی جو ارطغرل غازی سے شروع ہوتی ہے اور ان کا بیٹا عثمان غازی 1299 میں خلافت عثمانیہ کی بنیاد رکھتا ہے اور اس دور میں ترکی دنیا کے تین براعظموں پر حکومت کرتا ہے یعنی ترکی 1299 سے لے کر 1923 تک دنیا کی سپر پاور رہا ہے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی میزبانی بھی ترکوں کے پاس تھی، اس وقت دنیائے اسلام سپر پاور رہا اور بےشمار جدید ہتھیاروں سے لیس ترکی کی ایک مضبوط فوج تھی۔

(جاری ہے)

لیکن جب عالم اسلام عروج سے زوال کی طرف گیا اور ترکوں کی پاور ختم ہوئی تو اس میں سے چالیس مزید ممالک بن گئے اور ترکی کو ایک معاہدے کے ذریعے سو سال تک کیلئے ہاتھ پاؤں باندھ کر مفلوج کردیا گیا۔ لیکن اب صرف دو سال رہ گئے ہیں اس معاہدے کے ختم ہونے میں جسکی وجہ سے مغرب اور امریکہ کو شدید خطرات لاحق ہورہے ہیں کہ طيب أردوغان 2023 کے بعد کیا کرنے جارہا ہے۔

۔۔
مغرب اور امریکہ نے بہت بار کوشش کی طیب أردوغان کی حکومت کسی طرح ختم کی جائے لیکن ہمیشہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 15 جولائی 2016 کو اچانک ایک خبر بریک ہوتی ہے کہ ترکی میں مارشل لاء لگانے کیلئے فوج نکل آئی ہے اور تمام اداروں کے اوپر اپنا کنٹرول کررہی ہے۔ فوجیوں نے سڑکوں پر اپنے ٹینک نکال لیئے ہیں یہ سارے کا سارا پلین مغرب اور امریکہ کا تھا اور وہاں جشن منایا جارہا تھا۔

لیکن یہ انٹرنل حملہ کچھ ہی گھنٹوں بعد ترکی کی اپنی عوام نے ناکام بنا دیا دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ترکی کی عوام ٹینکوں کے سامنے آکر لیٹ گئی اور اپنے ہی فوجیوں سے لڑنا شروع کردیا۔ بہت سے لوگوں نے فوجی آفیسرز کو پکڑ لیا اور یہ پہلی دفعہ ایسا دیکھنے کو ملا کے عوام جمہوریت کی خاطر اپنی جانوں کی قربانیاں دینے کو تیار ہوگئے تھے۔ ترکوں نے جب اس بغاوت کو اپنے زور بازوؤں سے کچلا تو مسلمان ممالک بشمول پاکستانیوں نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا لیکن امریکہ اور مغرب میں صف ماتم بچھ گیا تھا۔

۔۔
اس بغاوت کو کچلنے کے بعد طيب أردوغان ترکی کے مضبوط ترین لیڈر بن کر سامنے آئے ہیں اور اب ترکی نے معاہدہ لوزان میں جو کچھ کھویا تھا انکی خواہش ہے کہ وہ سب کچھ دوبارہ انہیں ملے۔ ترکوں سے حجازِ مقدس کی میزبانی چلی گئی تھی جو اب انکی خواہش ہے کہ واپس ان کو ملے اور مغرب یہ جانتا ہے کہ طیب أردوغان یہ سب کچھ کریں گے کیونکہ وہ اس وقت ترکی کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور پوری عوام انکے ساتھ ہے۔

۔۔
طیب أردوغان میڈیا کی طاقت کو جانتے ہیں اور انہیں پتہ ہے میڈیا پروپیگنڈہ وار کو کس طرح شکست دینی ہے اسی لیئے انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مشورہ کیا تھا کہ پاکستان، ترکی اور ملائشیا مل کر ایک چینل کھولیں تو مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا بہتر طریقے سے جواب دیا جاسکتا ہے جو وہ اسلام مخالف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ترکی جانتا ہے وہ اپنی حالت تو بہتر بنا سکتا ہے لیکن اسے اپنے ساتھ مضبوط دوست ممالک بھی چاہیں۔

سعودیہ کے ساتھ ترکی کے تعلقات تو اچھے نہیں بن سکتے کیونکہ سعودیہ کو پتہ ہے ترکی ہم سے حجاز مقدس کی میزبانی واپس مانگے گا لیکن ترکی کے پاکستان، قطر اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔۔۔
ترکی کی سب سے بڑی امید پاکستان ہے لیکن سوال یہ ہے کیا پاکستان 2023 تک اس پوزیشن پر آجائے گا؟ پاکستان اس پوزیشن پر آسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی جیوگرافیائی اہمیت کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔

دنیا کے جو الائنس بن رہے پاکستان ان میں جیوگرافیائی لحاظ سے بہت ہی اہم جگہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس وقت ساری دنیا نظر انداز ہوسکتی ہے لیکن پاکستان کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ ہم نے بہت سے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ بےشمار جنگیں لڑی ہیں۔ بہت سی اسلامک ریاستوں کو آزاد کروایا ہے۔ سوویت یونین کو شکست دی ہے ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو کچل کے رکھ دیتے ہیں۔

واحد اسلامک اٹامک پاور ہیں اور دنیا نے مانا کا سب سے بہترین اور سکیور اٹامک پروگرام پاکستان کا ہے جو آج تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے اس لیئے دنیا پاکستان پر خاص نظر رکھتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ترکی کی نظر میں پاکستان کی ایک خاص اہمیت ہے اور آنے والے وقتوں میں پاکستان کا ووٹ ترکی کیلئے بہت خاص ہوگا۔ 2023 کے بعد ترکی تبدیل ہونے جارہا ہے اور پوری دنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں وہ ممالک جنکی آج کوئی اہمیت نہیں ہے انکی ہاں میں دنیا کے فیصلے ہونگے۔

اہل عقل لوگوں کو سمجھ آرہی ہے کہ مستقبل کس کا ہے اور یہ قربتیں جو آج پاکستان اور ترکی کی، چائنہ اور روس کی، قطر اور ایران کی ہیں یہ مغرب کو ایک آنکھ بھی نہیں بھا رہیں۔ ان قربتوں سے مغرب اور امریکہ کی اکانومی کو بہت بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے۔ آنے والے تین سے چار سال بہت فیصلہ کن سال ہونگے اور ان فیصلوں میں پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ ہوگا۔۔۔ ان شاءاللہ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :