مینارِ پاکستان اور بھوکے بھیڑیے

جمعہ 20 اگست 2021

Waseem Akram

وسیم اکرم

قوموں کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب کسی قوم یا معاشرے میں عدل و انصاف ختم ہوجاتا ہے۔ جسٹس یا رول آف لاء جس قوم سے ختم ہوجائے وہ قوم اخلاقی طور پر مر جاتی ہے۔ یعنی جس قوم میں امیر اور غریب کیلئے الگ الگ انصاف کے نظام بن جائیں اس قوم کا اپنے نظام انصاف سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور ہر شخص خود انصاف کیلئے نکل پڑتا ہے اور بدقسمتی سے اگر عدل و انصاف کے پیمانے کو دیکھا جائے تو ہمارا وطنِ عزیز بھی انہی چیلنجز سے گزر رہا ہے جہاں آئے روز کچھ نہ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والے کی عقل ڈھنگ رہ جاتی ہے۔

۔۔
ہمارے وطن عزیز یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہورہا ہے جو ہمارے لیئے شرم کا باعث بنتا ہے کیونکہ ایسے واقعات کچھ دن تک الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

کبھی ساہیوال میں بچوں کے سامنے انکے والدین کو گولی مار دی جاتی ہے تو کبھی زینب جیسی ننھی معصوم بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی موٹروے پر خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی مردان میں بچی کے ساتھ زیادتی کر کے اسے مار دیا جاتا ہے اور ہمارے سیاستدان بیان بازی کرکے چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد ہمیں بھی نہیں پتہ ہوتا کہ چند دن پہلے کیا ہوا تھا۔

۔۔ 14 اگست یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی کے دن مینار پاکستان پر جو واقعہ ہوا وہ بھی اپنی نوعیت کا ایک افسوسناک واقعہ ہے جسکی فوٹیجز دو دن بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں۔ ایک لڑکی جس کا نام عائشہ ہے اور وہ 14 اگست والے دن مینار پاکستان پر ایک ویڈیو بنانے جاتی ہیں اور وہاں موجود چار سو سے پانچ افراد اسے کس طرح نوچ رہے اس کے کپڑوں کو کھینچ رہے ہیں یعنی دیکھنے والوں کو یوں لگے گا جیسے چار پانچ سو بھوکے بھیڑیے یا بوکے کتے جن کو کافی عرصے سے کچھ کھانے کو نہ ملا ہو اور وہ شکار کو نوچ رہے ہیں یا کھا رہے ہیں۔

وہ لڑکی جو آزادی کا جشن منانے جاتی ہے اسے کس طرح برہنہ کیا جاتا اور کس طرح اسکے کپڑے کھینچے جاتے ہیں اور ٹارچر کیا جاتا ہے انسان ایک حد تک ٹارچر برداشت کرسکتا ہے اور میرا نہیں خیال وہ لڑکی کبھی اس اذیت سے باہر آئے گی اور بدقسمتی سے آزادی کا دن یعنی اس دن کیلئے یہ قوم آزاد ہوئی تھی۔۔۔؟ اور میں اس بات پر حیران کہ وہاں کوئی ایک مرد بھی ایسا موجود نہ تھا جو اس لڑکی کو اپنی بہن بنا کر وہاں سے نکال لیتا بھوکے بھیڑیے تو اپنی بھوک مٹا رہے تھے لیکن کیا ہم بحیثیت قوم سب کے سب بھوکے بھیڑیے بن گئے ہیں۔

۔؟ اب پھر وہی بیان بازی شروع ہے کہ ہم انکو سزا دیں گے ہم انکو الٹا لٹکا دیں گے وغیرہ وغیرہ لیکن اگر قانون کا اتنا ہی خوف ہوتا تو وہ چار سو بھیڑیے یوں سرعام اس لڑکی کو نوچتے۔۔؟ قانون تو ہمارے ملک میں ہر دوسرے دن بن جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان قانون پر عمل درآمد کوئی نہیں ہوتا بس یوں ہی کوئی غریب پھانسی چڑھ جاتا ہے کسی امیر کے گناہ کے بدلے۔ آج یہ واقعہ کسی غیر کے ساتھ ہوا ہے تو کل کو ہماری اپنی ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے یعنی ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے سامنے برائی ہورہی اور ہم اسے روکنے کی بجائے الٹا انکا ساتھ دے رہے جو غلط کررہے ہیں۔  یقیناً ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم واقعی مسلمان ہیں یا بس صرف "نام" ہی مسلمانوں والا رہ گیا ہے۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :