افغانستان کی فتح میں کس کا کیا کردار ہے؟

بدھ 22 ستمبر 2021

Waseem Akram

وسیم اکرم

اللہ تعالٰی نے ہر دور میں اپنے دین کی سربلندی اور اشاعت کیلئے ایک ایسی شخصیت کو افق عالم پر ابھارا جس نے اپنے خداداد صلاحیتوں سے تمام عالم اسلام کو مستفید کیا اور عالم کفر کو ناکوں چنے چبوائے۔ ایسی ہستیوں کو دنیا آج تک عزت و احترام کے القابات سے یاد کرتی ہے۔۔۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جب بھی کافروں نے مسلمانوں پر یلغار کی تو انہوں نے اپنے مدمقابل ایسے مرد مجاہد کو ضرور پایا جس نے انکے دانت کٹھے کیئے رکھے۔

اور اپنے چھوٹے چھوٹے دستوں اور اپنی چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے کفار کے بڑے بڑے لشکروں کو کاٹ کے رکھ دیا اور انہیں ایسی ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا کہ وہ رہتی دنیا تک کیلئے نشان عبرت بن گئے۔ انہی اونچی ہستیوں میں ایک نام امیرالمومنین ملا عمر مجاہد کا بھی ہے جو طالبان رہنماؤں میں سے عظیم علمی خاندان کے چشم و چراغ میں سے ہیں۔

(جاری ہے)

صدیوں سے آپکا خاندان دینی علوم کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

آپکا پورا نام ملا محمد عمر ہے اور آپ کے والد کا نام مولوی غلام نبی اخوند ہے۔ آپ خوتک نامی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو قندھار میں تقريبا ایک سو سال سے آباد ہے۔ آپ برصغیر کے عادل اور مجاہد حکمران احمد شاہ ابدالی کے دارالخلافہ قندھار کے ضلع خاکریج کے گاؤں جاہمت میں 1960 کو پیدا ہوئے جہاں آپ کے والد مدرسہ میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔

ابھی ملا عمر پانچ سال کے ہی تھے کہ والد چالیس سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ آپ 18 سال کی عمر کو پہنچے تو روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اس وقت کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ 18 سال کا بچہ جہاد فی سبیل اللہ کیلئے نکلے گا اور پوری دنیا کی طاقتوں کو شکست سے دوچار کرے گا۔ آپ روسیوں کے خلاف میدان جہاد میں لڑتے ہوئے چار بار شدید زخمی ہوئے۔

سنگسار کے میدان میں روسیوں کے خلاف جہاد میں جب شدید زخمی ہوئے تو اس بار انکی ایک آنکھ بھی شدید زخمی ہوگئی۔ ملا عمر کو کوئٹہ ہسپتال لایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں ہدایت کی کہ آپ نماز کیلئے پانی کا استعمال نہیں کرسکتے ورنہ زخم مزید خراب ہوجائیں گے لیکن ملا عمر ہر نماز وضوء کرکے پڑھتے رہے اور فرماتے تھے معمولی سے زخم کیلئے نماز بغیر وضوء کے پڑھوں یہ ناممکن ہے۔

ملا عمر طالبان کے سب سے بڑے قائد تھے اسی لیئے آپکو امیر المومنین کا لقب دیا گیا۔۔۔
روس جب افغانستان سے بھاگا تو افغانستان میں بدامنی عروج پر تھی۔ ہر طرف قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا طالبان کے سبھی گروپس آپس میں دست و گریبان تھے اور چاروں جانب اسلحہ اور بارود کی بو پھیل چکی تھی۔ چمن سے قندھار کا صرف 70 میل کا فاصلہ ہے لیکن اس تھوڑے سے فاصلے پر جگہ جگہ افغان طالبان کے مختلف گروہوں نے اپنی اپنی چیک پوسٹیں لگا رکھی تھیں جو ہر گزرنے والی گاڑی سے جبری ٹیکس وصول کرتی تھیں۔

امن و امان کی یہ صورت حال تھی کہ کسی جان محفوظ تھی نہ مال۔ کابل شہر کے دونوں طرف توپیں نصب تھیں اور شہر کھنڈر بن چکا تھا۔ ہر طرف یہی صدائیں تھی کہ اللہ ہمارے لیئے کوئی مدد گار بھیج دے۔
اور پھر ایک صبح ملا محمد عمر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں نے خواب میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے جو مجھے کہہ رہے ہیں کہ اٹھو جہاد شروع کرو اور امن قائم کرو اللہ تمہیں نصرت دے گا۔

اس کے بعد اس خطے کے لاکھوں لوگوں نے دیکھا کہ ملا عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبہ مبارک نکالا اور لاکھوں لوگوں نے اس جبہ مبارک کو سامنے رکھتے ہوئے ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کے بعد قندھار کی تمام فوج نے گولی چلائے بغیر ہی ملا عمر کے آگے ہتھیار دال دیا۔ یہ اسی نصرت کا نتیجہ تھا کہ چند دنوں میں افغانستان کا 90 فیصد حصہ ملا عمر کے کنٹرول میں آگیا۔

پوری دنیا حیران تھی کہ یہ سب کیسے ہورہا ہے کہ ساری طاقتیں ان طالبان کے آگے مٹی کی دیوار ثابت ہورہی ہیں۔ اس کے بعد نائن الیون کے خود ساختہ حملوں کے بعد امریکہ نے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے امریکہ کو تین آپشن دیں لیکن امریکہ نے کسی کو بھی نہیں مانا اور حملہ کردیا۔ اور ملا عمر نے اس موقع پر کہا کہ اگر تمام حکومتیں بھی ہمارے مقابلے پر آئیں تو بھی دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی اسامہ ہمارا مہمان ہے اور اسے ہم کسی کے دباؤ یا لالچ میں کسی کے حوالے نہیں کرسکتے۔

کوئی بھی غیرت مند مسلمان کسی مسلمان کو کافر کے حوالے نہیں کرسکتا۔ ہم اسامہ کی حفاظت اپنے خون سے کریں گے امریکی سی آئی اے نکمی اور بےکار ہوچکی ہے اور وہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ہر بم دھماکے کا الزام اسامہ پر لگاتی ہے اسامہ کے پاس اتنے وسائل ہیں نہ وہ اتنے دور دراز علاقوں تک بم گرا سکتے ہیں۔ تاہم حملوں کے بعد ایک بار پھر ملا محمد عمر سے اسامہ کی ڈیمانڈ کی گئی لیکن تب بھی ملا عمر کا یہی جواب تھا کہ پورا افغانستان بھی الٹ جائے تب بھی اسامہ کو انکے حوالے نہیں کروں گا۔

امریکہ جو کرنا چاہتا ہے کر لے اور ہم بھی جو کرسکتے ہیں کریں گے۔ ملا عمر آخری وقت تک ثابت قدم رہے اور کبھی امریکیوں کے سامنے جکے نہیں۔ آپ نے مسلسل 12 سال تک عالمی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور 2013 میں آپکا انتقال ہوگیا۔ آپکے مشن کو طالبان نے جاری رکھا اور 2021 میں بیس سال بعد دنیا نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ افغانستان سے شکست کھا کر بھاگا اور ایک بار پھر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :