پولیس آرڈر2002 نافذ کرنے کا سہی وقت

بدھ 30 جنوری 2019

Wasique Ahmed

واثق احمد

کیا سانحہ ساہیوال جیسے اندوہناک واقعے کے بعد بھی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا جو ہم انگریز دور کے گھسے پٹے اور عوام دشمن پولیس ایکٹ 1861ء سے نجات حاصل کرے؟ 1857ء میں جب انگریز نے برصغیر میں اپنا تسلط قائم کیا تو عوام کے دلوں میں اپنے اقتدار کی دھاک بٹھانے کے لئے پولیس ایکٹ جیسے قوانین متعارف کرائے، جس نے ریاستی ادارے کو بے عنان کیا، امن و ا مان برقرار رکھنے یا تفتیش کے نام پرکسی کو زیر عتاب لانا پولیس کے لئے کوئی مشکل نہیں رہا۔


 ستم بالائے ستم یہ کہ سات عشروں کے دوران آئین میں 21 ترامیم کی گئیں جن میں سے اکثر ترامیم حکمرانوں کے ہی بیچ اختیارات و اقتدار کی تقسیم کے گرد گھومتی ہے،عام آدمی کے مسائل کا احساس رکھنے کے دعویداروں کو توفیق نہ ہوئی کہ جن مشکلات اورمسائل سے عام شہری کو روز سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے تدارک کے لئے قانون سازی کی جائے ہمارے یہاں آج بھی تھوڑے سے ردوبدل کے بعد 1972ء کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور 1861 ء کا پولیس ایکٹ نافذ العمل ہے،تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ دور آمریت میں ہی عوام کے لئے قانون سازی کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں،فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کاڈھانچہ ملک میں متعارف کرایا جس میں یونین کونسل سطح تک مالی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لئے عوام کو اپنے لئے سیلف گورننگ باڈیز منتخب کرنے کے اختیارات دیئے گئے، بھٹو صاحب آئے تو بنیادی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈینینس متعارف کرایا یہ بات الگ کہ جمہور کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اپنے ہی نافذ کردہ آرڈیننس کے تحت الیکشن کرانے سے گریز کیا وقتافوقتا لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ترامیم کی گئی ۔

(جاری ہے)

پرویز مشرف نے2001ء میں ایک با اختیار لوکل گورنمنٹ آرڈیننس نافذ کیا ماسوائے خیبرپختونخواہ حکومت کے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی ہمارے جمہوری لیڈران کوگوارہ نہ ہوئی اور حکومتی عنان سمبھالتے ہی ایک بار پھر عوام کو بیوروکریسی اور کمشنر ی نظام کے رحم و کرم پے چھوڑکے انہیں بے اختیار کردیا گیا۔
آمر مشرف کے دور میں پولیس کو سیاسی اثر رسوخ سے پاک کرنے اور اسے مقامی لوگوں کی بنائی گئی کمیٹیوں کے سامنے جوابدہ کرنیکے لئے پولیس آرڈڑ 2002ء بنایا گیا جس میں پولیس کو تغیر پذیر سیاسی،معاشرتی اور سماجی مسائل کو ملحوظ خاطر رکھ کر حقیقی معنوں میں عوام کا محافظ بنانے کی سعی کی گئی۔

پولیس آرڈر 2002ء کے تحت ضلعی سطح سے لیکر صوبائی اور قومی سطح تک پولیس کمپلینٹ کمیشن اور اٹھارٹیز تشکیل دینے کی تجویز دی گئی جس میں لوکل پولیس سمیت وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی سوسائٹی پولیس کے سامنے جواب دہ بنایا گیا،ضلع سطح پر پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹ کمیشن کی تشکیل نو سے مقامی پولیس کو بلا واسطہ سول سوسائٹی اور مقامی منتخب نمائندوں کے آگے جوابدہ کیا گیا،پولیس کی جانب سے کسی عام شہری سے بدسلوکی یا زیادتی برتنے پر ضلع پولیس آفیسر کو پبلک سیفٹی کمیشن کے حکم پر پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا پابند بنایا گیا پولیس آرڈر کے نافذ ہونے کے بعد عام آدمی کے دل سے پولیس کاخوف ختم ہوجاتا پولیس آرڈر کے نافذ ہونے سے تھانہ کلچر کے خطرے میں پڑنے کے خوف سے ارباب سیاست نے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے اور اسکے رائج ہونے میں سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔

 موجودہ حکومت نے تبدیلی کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کیا ہے اس حکومت سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے با اختیار ہونے سے کم از کم پنجاب کی حد تک جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے پولیس آرڈر 2002اپنی اصل رو میں نافذ کرکے پولیس کو حکمرانوں کے اثرو رسوخ سے رہا کرکے آزادانہ کام کرنے اور عوامی پولیس بننے کا موقع دیا جائے تحریک انصاف کی کے پی میں دوبارہ کامیابی کی ایک بڑی وجہ وہاں کی غیر سیاسی پولیس اور عوام دوست پولیس رویہ بھی ہے،سانحہ ساہیوال کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا اگر اب بھی ارباب بست و کشاد نے پولیس اصلاحات پر مبنی پولیس آرڈر نافذ نہ کیا تو سانحہ ساہیوال جیسے واقعات رونما ہوتے رہینگے پرجوش عوامی خواہش پر عمران خان حکومت نے پنجاب میں پولیس اصلاحات لانے کا اعلان کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ خان روایتی سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :