میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

جمعرات 27 فروری 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ایک بار خلیفہ ہارون الرشید نے بابا بہلول سے دریافت کیا کہ چور کی کیا سزا ہے؟ تو بابا بہلول نے کہا کہ اگر عادی چور ہے تو ہاتھ کاٹ دو اور اگر افلاس اور بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر چوری کی ہے تو حاکم وقت کا سر کاٹ دو۔ ایک مجذوب دانا نے کتنے گھمبیر مسئلہ کا نہایت مختصر لفظوں میں حل بتادیا۔ بنیادی طور پر معاشرے میں برائی کی ترویج میں اشرافیہ یا مراعات یافتہ طبقے کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

یہی وہ لوگ ہیں جن کی سرپرستی میں مافیا جنم لیتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں اور آہستہ آہستہ معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ انصاف کا نہ ملنا یا غریب کیلئے کوئی اور قانون اور امیر کیلئے کوئی اور قانون۔ جب دل میں سزا و جزا کا تصور ہی نہ ہو تو دل ویسے ہی مطلق العنانی پر آمادہ رہتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسے میں اگر نشانہ غریب کا بچہ ہو تو پھر ظلم کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔


 کل ہی خبروں میں شامل تھا کہ لاہور کی ایک خاتون نے ۱۴ سا لہ ملازمہ پر تشدد کی انتہا کر دی نہ صرف اسے زخمی کیا بلکہ اس کے سر کے بال بھی مونڈ ھ دیئے ، لگتا کچھ یوں ہے کہ جیسے پورا معاشرہ ہی اس چلن کا شکار ہے۔ آئے دن اس ہی قسم کی خبریں ہمیں چونکائے بغیر گزر جاتی ہیں۔ ہمارے کان اور ہمارے دل غریب بچوں کی اذیتناک اور دلخراش خبریں سن سن کر پک چکے ہیں۔

مگر کوئی نہیں جو ان مظلوموں کی داد رسی کو آ ئے، کوئی رفاحی دارہ کوئی ٹی وی چینل کوئی تنظیم مدد کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ ایک عجیب سی بی حسی اور سرد مہری پورے معاشرے پر طاری ہے اور ممکن ہے کہ سب یہ سوچ رہے ہوں کہ میرا بچہ تھوڑی ہے۔ ہر بار ایک نیا سانحہ سامنے آتا ہے ، کچھ نام نہاد فلاحی تنظیمیں شور مچاتی ہیں چینلز اپنی ریٹنگ بڑھا تے ہیں مال بناتے ہیں اور معاملہ کھیل ختم پیسہ ہضم کے مصداق سرد خانوں کی بھی کال کوٹھری میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

کیونکہ یہ عمل ایثار سے عاری ہوتا ہے اور محض پیسہ بنانے کا ذریعہ ہوتا ہے لہذا نتائج بھی نہ ہونے کے برابر ہی ہوتے ہیں۔ نشریاتی ادارے کوریج کے نام پر خوب راگ الاپتے ہیں اور مظلوموں کی عزت کا وہ پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے کہ شیطان بھی شرم سے دانتوں میں انگلیاں دابے نظریں چراتا نظر آتا ہے۔ رہی بات لواحقین کی تو وہ نہ زندوں میں ہوتے ہیں نہ مردوں میں۔


ُپاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ کم عمر ملازمین بچے جبری مشقت کا شکار ہیں ۔ حکومت وقت کسی حد تک اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے تو اس ضمن میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، کچھ حکومتی اقدامات سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ کچھ اعداد و شمار جمع ہو گئے ہیں، جن سے چاروں صوبوں میں کم عمری میں جبری مشقت کے اعداد و شمار بھی منظر عام پر آئے ہیں اور صوبوں میں موجود مافیاز کی بھی نشاندھی ہو گئی ہے۔

حکومت پاکستان مقدور بھر کوشش کر رہی ہے اور معاملات کچھ سنجیدگی کی طرف مائل بھی ہیں مگر کیونکہ مقابلہ بہت ہی طاقتور مافیا ز سے ہے لہذا نتائج خاطر خواہ حاصل نہیں ہو پا رہے ہیں۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں بچوں سے جبری مشقت کی بدترین مثالیں موجود ہیں، چاہے وہ گھریلو ملازمین ہوں یا کسی ادارے سے منسلک ہوں، بدترین حالات کا شکار ہیں۔ یہاں تک کے حبس بے جا میں رکھ کر کام کروانا بھی عام سی بات ہے۔

اینٹوں کے بھٹے ، قالین کے کارخانے ، بھیک منگوانا، چوڑی کے کارخانے، چائے خانے نوعمر ملازمین کے دم سے ہی چل رہے ہین۔ یہ تمام بچے ۵ سے ۱۵ سال تک کی عمر کے ہوتے ہیں۔
اگر ہم چند مہینوں کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو دل دھک سے رہ جائے گا۔ اور اپنے تمام تر دلخراشی کے باوجود نتائج نہ ہونے کے برابر ہیں، جو بذات خود ایک بڑا المیہ اور قابل شرم بات ہے۔

ہمارے لئے بھی اور معاشرے کے لئے بھی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ لاتعلقی اور بے حسی نے انہیں کتنا لاچار و مجبور اور معاشی طور پر بد حال کر دیا ہے کہ وہ بچے بیچنے پر مجبور ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو موت کی دہلیز پر چھوڑ رہے ہیں وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
نوعمربچوں سے جبری مشقت بذات خود ایک قبیح فعل ہے اور دنیا بھر میں بنیادی اخلاقی اقدار کے منافی سمجھا جاتا ہے۔

مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے ہاں اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور اس فعل قبیحہ کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اب تو یہ ایک قسم کا اسٹیٹس سمبل بن کر رہ گیا ہے، اس طرز عمل کے نتیجے میں عموما بچے یا تو زندگی بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں یا پھر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ مگر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی نے ان تلخ حقائق پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔


غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور والدین اپنے معصوم جگر گوشوں خصوصا بچیوں کو ان بگڑے نوابو ں کے حوالے کر دیتے ہیں، جو ان بچوں کو پالتو جانور یا غلام کی طرح رکھتے ہیں اور پھر جو ظلم بھی روا رکھ سکتے ہیں کر تے ہیں، جس میں کئی کئی سال تک ماں باپ سے ملنے نہیں دیا جاتا، جسمانی تشدد ہنٹر یا سلاخ سے مارنا، جنسی زیادتی ، استری یا چولہے سے جلا دینا، ہاتھ پاؤں توڑ کر معذور کر دینا، اور کبھی تو اس پر بھی اکتفا نہیں ہوتا اور مظلوم بچے کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔


اس مقام پر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس پورے قضیے میں والدین کا کتنے فیصد کردار ہے، کیونکہ ان کی رضا سے ہی بات آگے بڑھتی ہے اور سانحے کی شکل تک پہنچ پاتی ہے۔ کیا یہ صرف مالی پریشانی اور غربت ہے جو والدین کو اس حد تک مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ معاملہ چاہے جو بھی ہو، نو دولتئے غریبوں کی اس کمزوری سے خوب واقف ہوتے ہیں اور اپنے پیسے کی طاقت کا بڑا زعم ہوتا ہے ان کے دماغوں میں، لہذا یہ اپنے پیسے کی طاقت کے عوض غلام نما بچے خرید کر گھر میں رکھ چھوڑتے ہیں ۔

ان بھوکے اور مظلوم بچوں پر کام کا اس قدر بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ اس عقوبت خانے سے آذادی کا سوچنا تک بھول جاتے ہیں اور یہ نام نہاد آقا جب اور جہاں موقع ملتا ہے اپنی انا کی تسکین کی خاطر ان مظلوم بچوں کو تختہ مشق بنانے سے نہیں چوکتے اور جو ظلم روا تکھ سکتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ اس ظلم کی چکی میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ میرے پاس اتنا حوصلہ نہیں کہ ان مظالم کو قلمبند کر سکوں۔ بس اس دعا پر اپنے کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ۔ اللہ ان پر رحم فرمائے اور ہمیں اتنی ہمت دے کہ کم از کم ان مظلوموں کی داد رسی کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :