کیا ہم ایک بالکل ہی غیر مہذّب قوم ہیں

ہفتہ 28 مارچ 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

آپ حضرات نے وہ مشہور کہانی تو ضرور سنی یا پڑھی ہوگی جس میں سونے کا انڈا دینے والی مرغی اور لالچ کے انجام کا تذکرہ تھا، کہ کس طرح لالچ ایک انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر نقصان پہنچاتی ہے ۔ جب اس شخص نے اپنی روزانہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو اس لالچ کی وجہ سے زبح کردیا تھا کہ روز روز کے ایک انڈے کی الجھن سے نجات حاصل کر کے سارے انڈے ایک دم ہی حاصل کرسکے، اور امیر کبیر بن جائے مگر نتیجہ ہمیشہ وہ نہیں نکلتا جو انسان سوچتا ہے اور لالچ کا انجام تو ہوتا ہی برا ہے۔

لہذا مرغی بھی گئی ہاتھ سے اور سونے کے انڈے بھی۔
بالکل یہی حال ہمارا معاشرتی طور پر ہے، ہم بہت تھوڑے سے فائدے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ اخلاق، بردباری، تحّمل ، صبر اور اپنی باری کا انتظار جیسے لفظ ہماری لغت میں شاید ہیں ہی نہیں ہیں، اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ، اگر اپنے محسن کی گردن پر چھری پھیرنا پڑے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔

(جاری ہے)


 سب ہی کیلئے بہت ہی حیران اور شرمندہ کردینے والا منظر تھا کہ ایک شخص جو غریبوں کی مدد کرنے آیا تھا خود مدد کا طلبگار بن گیا، موجودہ لاک ڈاؤن کی صورتحال اور اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ایک رحم دل انسان روز انہ کی مزدوری کرنے والوں کی مدد کو فرشتہ بن کر آیا، اور لگا مجبور و مایوس بیٹھے مزدوروں میں رقم بانٹنے ، مگر یہ کیا وہ تو ایک پرتشدد ہجوم کے درمیان بے بس و لاچار پھنس گیا تھا لوگ اسے ہر طرف سے کھینچ رہے تھے اس کے کپڑے پھاڑ رہے تھے، بال نوچ رہے تھے بس ایک جنون تھا لوگوں میں کہ یہ تمام پیسے میرے ہاتھ آجائیں۔

اس کے بدلے اس فرشتہ صفت انسان کو مارنا بھی پڑے تو ماریں گے۔ خدا کا شکر کہ کچھ راہ گیروں نے یہ منظر دیکھ لیا اور مدد کو آ پہنچے، مگر چھیننے والوں میں بچانے والوں سے زیادہ جوش و جذبہ تھا لہذا کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ اسی طاقت سے حملہ آور ہوئے اور پھر وہی گھمسان کا رن۔ آخر کار اس بیچارے نے سارے نوٹ ہوا میں اچھال کر بہ مشکل اپنی جان بچائی اور دوڑ لگانے میں عافیت جانی۔

یہ ایک قصہ ہے ایسے ہزاروں قصّے ہمارے اردگر بکھرے بڑے ہیں۔ ایک اور اسی سے ملتا جلتا واقعہ جو ان ہی دنوں پیش آیا اور بھی چشم کشا ، تکلیف دہ اور حیرت انگیز ہے کہ ان ہی مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد کیلئے ایک خاتون گھر سے رقم لے کر مدد کو آئیں، پھر کیا ہوا، لوگوں نے ان کے خاتون ہونے کا لحاظ بھی نہ کیا اور ان کا وہ حشر کیا کہ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، جتنی شرمندگی کا اظہار کیا جائے کم ہوگا۔

مگر یہ سب کیا ہے اور ایسا بار بار کیوں ہو رہا ہے، یقینا بار بار ایسا ہونا کسی خاص سمت اشارہ کر رہا ہے۔ وہ یہ کہ ہم بنیادی اخلاقی تربیت اور لحاظ مروّت سے بالکل عاری ہو چکے ہیں۔
معاشرے طبقاتی خلیج کی وجہ سے طبقات آپس کے میل جول سے کٹ کر رہ گئے ہیں ساتھ ساتھ مناسب رہنمائی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو موقع پرست ، ابن الوقت ، غیر ذمہ دار اور عادی مجرم بن چکی ہے، اور آج کے پل میں جینے کی عادی ہوچکی ہے ، وہ ذہنی طور پر کسی بھی طرح بس آج کے پل کو کمانے کے عادی بن چکی ہے، جرائم کو بطور پیشہ اور بلا کیسی شرمندگی اپنا لیتے ہیں، میرا اندازہ یہ ہے کہ وہ بخوبی یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی وقت وہ ایک دردناک موت کا شکار ہو سکتے ہیں ، ان کی کوئی سماجی حیثیت نہیں ہوتی، کوئی گھریلو ذمہ داری نہیں ہوتی وہ ہر رشتے ہر ناطے سے فارغ بس اپنے لئے آج کے پل میں جی رہے ہوتے ہیں۔

اور ان تمام افعال قبیحہ پر کوئی ندامت، پریشانی یا افسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ وہ اسے باعث فخر و انبساط لیتے ہیں ۔ عمومی ایسے لوگوں کے گھر والے شرمندہ و پریشان ہی رہتے ہیں ، کیونکہ لاڈلا بار بار جیل جا رہا ہوتا ہے، مگر سسٹم کی خرابی اسے درست راہ پر ڈالنے کے یا اس کی اصلاح کے اسے بار بار رہا کردیتا ہے۔ اور ہر بار ان کے اعتماد کو بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے اور وہ مذید تندہی سے جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

بلکہ یہ بھی مشہور ہے کہ جیل پلٹ مجرم تو سرٹیفائیڈ ہوجاتا ہے اور جو جتنی بار جیل گیا ہوتا ہے وہ اتنا بڑا گرو مانا جاتا ہے۔
ہم ایسے کیوں ہوتے جا رہے ہیں کبھی غور کیا؟ یہ اخلاقی گراوٹ کہاں جا کر رکے گی، اور معاشرے پر اس کے پڑنے والے اثرات کیا گل کھلا سکتے ہیں ، جو اپنا نہیں ہوتا وہ کسی کا نہیں ہوتا، تو پھر کیا شہر جنگل بن جائیں گے ہمارا حال بھی ڈیٹرائیٹ جیسا ہو جائے گا؟ تو جواب ہے جی ہاں بالکل ایسا بھی ممکنات میں سے ہے۔

ہم ان وجوہات اور رویوں پر غور اور ان کے تدارک پر عمل کیوں نہیں کرتے، صرف اس لئے کہ ابھی چنگاری میرے دامن تک نہیں پہنچی ہے۔ جناب بڑے شہروں کے رہائشی اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ کتنی بار اس سر راہ یا گھر میں لٹنے کی تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوچکے ہیں۔
ٓان رویوں کے پروان چڑھنے اور پنپنے کی بنیادی وجہ غربت اور معاشرتی ناہمواری ہے، لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، دوسری وجہ تعلیم سے محرومی ہے۔

غریب عوام اوّل تو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل نہیں ہوتے اور اگر کوشش کر بھی لیں تو معاشرے میں رائج طبقاتی نظام یا فیوڈل سسٹم ان کی راہ کی دیوار بن کر سامنے آجاتا ہے۔ جو ایک بہت ہی زبردست احساس محرومی کو جنم دیتا ہے جو بڑھتے بڑھتے معاشرے سے نفرت اور پھر بغاوت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جو ہمارے گرد روز ایک نئی دکھ بھری کہانی کو جنم دیتا ہے۔


اگر ہم غور کریں تو فوراً ہی اندازہ ہو جائے کا کہ ہمارے طبقاتی نظام کے بگاڑ نے بہت ہی خطرناک کردار ادا کیا ہے، اب سے چند دھائی پہلے ہمارے ہاں تین طرح کے طبقے ہوتے تھے ، امیر (Elite Class) درمیانہ طبقہ یا سفید پوش (Middle Class) اور نچلہ طبقہ (Lower Class) وقت اور سماج کے ظالم ہاتھوں نے سفید پوشوں کو تو بالکل ختم ہی کردیا اور اب صر ف امیر طبقہ ہے یا غریب جس کی وجہ سے زبردست طبقاتی فرق ابھر کر سامنے آیا ہے اور معاشرے میں محرومی ابتری اور انارکی کا سبب بنا ہوا ہے۔

یہ جو جرائم کی دنیا کے لوگ ہیں ان میں بیشتر معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ، نا آسودہ حالات کا شکار نچلے طبقے کے افراد ہیں جو معاشرے سے اپنی نا آسودگی اور ناانصافی کا انتقام لے رہے ہوتے ہیں، وہ معاشرے کے باغی ، سماج کے باغی، گو کہ ہر رشتے کے باغی ہوتے ہیں یہاں تک کے وہ اپنی ذات تک کے باغی ہوتے ہیں، تب ہی تو وہ اپنی جان اور اپنے اہل و ایال کی جان و عزت کی پرواہ نہیں کرتے۔

وہ معاشرے کے لئے سوہان روح بنے ہوتے ہیں۔ اور یہی معاشرتی تکلیف ان کی نفسیاتی سکون کا سبب ہوتی ہے۔ جو بہت ہی تکلیف دہ اور خطرناک بھی ہے۔
اگر ان تمام برائیوں کو درست کرنا ہے تو معاشرے کو فلاحی اصلاحی معاشرہ بنانا ہوگا، یہ تو فی الحال ممکن نہیں کہ امیر غریب کا فرق مٹا دیا جائے مگر کم از کم غریب اور نادار لوگوں کی فلاح و بہبود کے پروگرام بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیں ، مثلاً، ہر بچہ کیلئے تعلیم و صحت کا مناسب انتظام لازمی ہونا چاہئے، وہ بھی مفت ، اس کی کتابوں اور تعلیم کے تمام اخراجات حکومت وقت کی ذمہ داری ہونا چاہئے۔

غریب کے بچوں کو تعلیم کے تمام مواقع فراہم کئے جانے چاہیں۔ فنّی تعلیم کا بھی مناسب بندوبست ہونا چاہئے۔ ایک مکمل لائحہ عمل ہونا چاہئے، ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی مناسب انتظام ہونا چائے تاکہ ذہنی و جسمانی نشو نما بھی پروان چڑھ سکے۔ ان کا سماجی طور پر مستحکم اور منظم ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ اس کا فائدہ من حیث القوم سب کو پہنچے گا۔

گو کہ اس تجویز سے وڈیروں، خانوں، سرداروں اور چوہدریوں کے مفاد اور انا کو شدید ٹھیس پہنچے گی مگر آج اگر یہ کڑوی گولی نہ نگلی تو کل پھر بندوق کی گولی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور جب دبا ہوا، پسا ہوا طبقہ ہتھیار اٹھاتا ہے تو سب سے پہلے ان کا نشانہ وہ اونچے درجے کے لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک ناآسودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہوتے ہیں۔

جس کی مثالیں سلطانہ ڈاکو سے لیکر پرو چانڈیو اور علی گوہر چانڈیو تک بھری پڑی ہیں۔
ہمیں کشادہ دلی سے ان کی موجودگی کو تسلیم کرنا ہوگا، اور معاشرے میں ان کا جائز مقام دینا ہوگا، جب کندھے سے کندھا ملے گا تو دل سے دل بھی مل ہی جائیگا۔ اور امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری دھرتی پر امن، سکون، پیار، اور ترقی کا سورج بھی طوع ہوگا جو تا قیامت ہماری زمین پر اور اس پر بسنے والے لوگوں پر اپنی روپہلی کرنوں کی ضوء فشانی کرتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :