ایک منٹ چھ سیکنڈ کا سفر

بدھ 29 اپریل 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

نہیں ماں میں آج رات کا سالن ناشتے میں نہیں کھاؤں گا، مجھے تو آملیٹ کھانا ہے۔ اور ماں اپنے لاڈلے بیٹے کی خواہش کو رد نہ کرسکی اور جھٹ اسکے لئے آملیٹ بنانے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ نظروں ہی نظروں میں اسے تول رہی تھی اور دل ہی دل میں اس کی وجاہت پر خوش ہو رہی تھی ، یہ اس کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا تھا، جس کی ہر جائز و جائز خواہش وہ پوری کر ہی دیا کرتی تھی۔

اس کے جانے کے بعد پاس ہی کھڑے بڑے بھائی نے ماں سے شکوہ کیا کہ ماں آپ ہمیں تو رات کا سالن ہی ڈانٹ کر کھلا دیتی ہیں جبکہ اس کو آپ نے آملیٹ بنا کر دے دیا۔ ماں نے بہت ہی پیار بھرے لہجے میں کہا کہ ارے ابھی وہ چھوٹا ہے ناسمجھ ہے ضدّی ہے کچھ دن بعد وہ بھی تمہاری طرح سب مان کر کھا لیا کرے گا۔ 
وہ ایک چھریرے بن والا طویل قامت خوبرو نوجوان تھا، جس کی موٹر سائیکل چلانے کی مہارت کے دوست دشمن سب ہی معترف تھے۔

(جاری ہے)

وہ ایک باکمال بائیک رائیڈر تھا۔ رہتا تو وہ فیڈرل بی ایریا میں تھا مگر شہر بھر میں بائیک اسٹنٹس کا بے تاج بادشاہ مانا جاتا تھا۔ آج اتوار تھا اور وہ بہت خوش تھا، کہ آج سارے دوست سی ویو جائیں گے جہاں وہ اپنے تیز بائیک چلانے کے شوق کو پورا کریں گے بلکہ خوب جوہر دکھائیں گے۔ ساتھ ساتھ ہوا کی رفتار سے بائیک بھگانے کی دل میں لیتی خواہش اور ہنگامہ خیزی کی بھی تسکین ہو جائے گی۔

 
وہ گھر سے نکلا اور لالوکھیت کے برج کی طرف ہو لیا، برج پر چڑھتے چڑھتے وہ سمجھو اپنی خاص موڈیفائیڈ بائیک کے سحر میں کھو سا گیا، ایک عجیب سا نشہ رگ و پہ پر طاری تھا، وہ آہستہ آہستہ تیز رفتاری کی حدوں کو چھونے لگا ساتھ ساتھ اپنی ذات میں مگن وہ بائیک پر اسٹنٹ بھی کرنے لگا۔ اب وہ ہوا کی رفتار سے برج پر چڑھ رہا تھا۔ وہ بائیک کی سیٹ پر لیٹا ہوا تھا، اور تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑ دینا چاہتا تھا۔

وہ بہت خوش اور مگن تھا، وہ ایک ہاتھ سے گئیر بدلتا اور ایک ہاتھ سے ہینڈل کنٹرول کر رہا تھا۔ وہ اسی برق رفتاری سے عائشہ منزل کی طرف اتر رہا تھا، ساتھ ساتھ بائیک کو پورے روڈ پر خطرناک طریقے سے لہرا رہا تھا۔ کبھی دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب لہرا کر نکلا جا رہا تھا۔ ارگرد سے گزرنے والے تعجب اور خوف بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے کہ وہ بالکل موت کا کھیل کھیل رہا تھا۔

برج اترتے اترتے بس لمحے بھر کو اس کی توجہ چوکی اور ساتھ گزرتے ہوئے رکشہ پر گئی اور ․ ․․․․․․․․ اور بائیک چوراہے سے ٹکرا کر ہوا میں اچھلی اور کھئل ختم۔ یہ پورا سفر اس نے ایک منٹ اور چھ سیکنڈ میں طے کیا تھا۔
اردگرد لوگوں کا ہجوم لگ گیا تھا، سب ہی غم اور افسوس بھری نظرون سے اسے دیکھ رہے تھے۔ کچھ لوگ موبائل فونز سے مووی بنا رہے تھے، کچھ کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے، اور کچھ ہکا بکا کھڑے اس دل دہلادینے والے منظر کی خوفناکی سے ابھرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

کچھ والدین کی تربیت کو کوس رہے تھے تو کچھ شہری انتظامیہ کی نااہلی کا رونا رو رہے تھے۔ مگر وہ سب سے بے نیاز کہیں دور کسی اور جہان کی طرف جا چکا تھا۔ ان تمام باتو ں سے بے نیاز وہ فٹ پاتھ کے قریب خون میں لت پت سیدھا پڑا تھا۔ دیکھنے والوں کے دل دھل کر رہ گئے تھے۔ جسم کی جیسے کوئی ہڈی سلامت نہ تھی۔ سر بھی دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔ مگر وہ دلنشیں چہرہ جس پر ماں فریفتہ تھی اب بھی سلامت تھا۔

 
یہ جانکاہ خبر جب اس کے گھر پہنچی تو سب ہی ششدر رہ گئے، پہلے تو لگا کہ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا، ارے وہ تو بڑا ماہر سوار تھا، بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر جب یقین آیا تو جان لیکر ہی آیا۔ شدت غم سے وہ رو بھی نہیں سکتے تھے بس گنگ ہو گئے تھے وہ سب ہی کا بڑا لاڈلا تھا۔ ماں پر تو سکتہ طاری تھا، وہ تو شدت غم سے اپنے ہواس کھو بیٹھی تھی۔

بس تھوڑی تھوڑی دیر میں یہ کہتی تھی کہ ارے وہ ابھی تو یہ کہہ رہا تھا کہ ماں میں رات کا سالن نہیں کھاؤں گا۔
بلاشبہ یہ ایک نہایت غم زدہ کردینے والی کہانی ہے، لیکن اگر ہم زرا سی توجہ دیں تو ایسی بے شمار کہانیاں اپنے اردگر موجود پائیں گے، اس طرح کے اندوہناک حادثے معمول کی بات ہیں کراچی سے پشاور تک نوجوانوں کا یہی رویہ ہے، راوی خود اس بات کا گواہ ہے کے جو دل دہلادینے والے واقعات یوم آزادی کے موقع پر لاہور میں دیکھے ، عقل حیران اور دل پریشان تھا کہ آخر یہ سب کیا ہے اور اس کا حاصل وصول کیا ہے۔

سینکڑوں نوجوان شہر کی شاہراہوں پر ون وہیلنگ، اسپیڈنگ اور اسٹنٹ کرتے نظر آرہے تھے وہ نہ صرف اپنی جان کے بلکہ دوسروں کی جان کے بھی در پہ بنے ہوئے تھے۔ دوسرے دن کے اخبار دیگر خبروں کے ساتھ بائیک پر کرتب دکھانے والوں کی اموات اور زخمی ہونے کی خبروں سے بھرے پڑے تھے۔
 ایسا ہی ایک واقعہ کراچی ڈیفنس اور کلفٹن کو ملانے والی شاہراہ پر ہوا جب اتوار کے دن اسی طرح کے بائیکرز کا ایک ہجوم پوری مستی میں تمام کرتب دکھاتا ہوا انجام سے بے خبر نہایت تیزی سے سی ویو کی طرف بڑھ رہا تھا کہ بغلی گلی سے ایک واٹر ٹینکر اچانک روڈ پر آگیا، بس پھر کیا تھا ایک قیامت صغری کا منظر تھا، قریب قریب سارے ہی سوار ٹینکر سے جا ٹکرائے تھے، جس میں سے بہت سے تو فوراً ہی مر گئے تھے مگر جو زندہ تھے لگتا تھا کہ وہ بھی بچ نہیں پائیں گے۔

ان کے جسم کے اعضاء اس بری طرح زخمی تھے کہ بیان سے باہر ہے۔ ہر جگہ سے ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ اسی طرح ایک گاؤں میں عید کے دن چھوٹی سی سڑک پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے والے نوجوان نے ایک پوری فیملی کی جان لے لی تھی کہ وہ بیچارے عید کے دن اپنے رشتہ دارون سے ملنے جا رہے تھے۔ اور اس ناگہانی کا شکار ہوکر پانچوں کے پانچوں موت کی وادی میں جا سوئے۔

سوال یہ ہے کہ اس قدر تکلیف دہ اور ناقابل برداشت نقصان کے باوجود اس میں کمی کیوں نہیں آرہی، اور نوجوان جوک در جوک اپنی قیمتی جانیں محض ایک بیکار شوق کی نظر کر رہے ہیں۔ جن گھرانوں کے نوجوان اس قسم کے حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں وہ عموماً کسی دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوتے ہیں، یہی وہ مقام ہے جہاں سے اپنی غلطی کی درستگی کی جا سکتی ہے، جس کی شدید ضرورت ہے۔

میں سمجھتا ہوں ان حادثات میں سب سے بڑا ہاتھ والدین کا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کا بیٹا موڈیفائیڈ بایئک رکھے اور چلائے اور انہیں خبر ہی نہ ہو، دوئم یہ کہ پورے شہر کو پتہ ہوتا ہے کہ اتوار کو صبح گھر سے نہیں نکلنا ، کیوں کہ آج بائیکرز شاہراہوں پر ہوں گے اور وہ کسی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ تو والدین کو علم نہیں کہ ان کا لاڈلا کہاں جا رہا ہے اور کیا کرنے جا رہا ہے۔

اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی قیمتی اور عزیز از جان اولاد محفوظ رہے اور معذوری کی زندگی نہ گزارے تو اپنے لڑکوں پر اس معاملے میں سختی کرنا ہوگی، ان پر نگاہ رکھنا ہوگی اور اس جان لیوا کھیل سے اپنے لڑکوں کو بچانا ہوگا۔ دوئم شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر میں ایسے جان لیوا کھیل پر پابندی لگائیں اور اسے کسی طور شہر میں عمل پزیر نہ ہونے دیں۔

شہری انتظامیہ بھی پوری طرح باخبر ہوتی ہے کہ کس دن کس شاہراہ پر کیا ہوتا ہے، وہ قانونی طریقے پر اس کو روکیں اور جو قانون توڑے اسے قانون کے مطابق سزا دیں۔ یوں تو اور بہت طریقے ہیں ا ن حادثات سے بچنے کے کہ آگہی مہم چلائی جائی نوجوانوں میں اس کے مضر اثرات کو اجاگر کیا جانا چاہئے، اس کیلئے فری سیمینار اور کنسورشیم ہونے چاہئیں۔ نوجوانوں کو اس بات سے مستقل آگاہ کرتے رہنا ہوگا کہ موت اور معذوری سے وہ کس طرح خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ مگر اس پورے معاملے میں سب سے اہم کردار والدین کا ہے اور دوسرے نمبر پر شہری انتظامیہ کا ہے کہ اگر یہ صدق دل سے کوشش کریں تو ان اندوہناک حادثات سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :