نو عمر بچیوں سے جنسی زیادتی اور ہماری معاشرتی ذمہ داری

پیر 4 مئی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

بے حسی سر چڑھ کر بول رہی ہے، روز ملک کے کسی نہ کسی حصہ سے روز ایک دردناک چیخ سنائی دیتی ہے مگر ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، ایسا کیوں ہے، من حیث القوم ہم اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں۔ یہ ایک نہایت تکلیف دہ اور افسوسناک بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں نو عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اس میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مجرم کو قرار واقعی سزا ملی ہو۔

2018 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ذینب انصاری زیادتی کیس میں عمران نامی شخص کو موت کی سزا دے کر ایک راست اقدام کیا تھا جو مثال بن جانا چاہئے تھا، اور اس سے ملتے جلتے ہر کیس کی ایسی ہی سزا تجویز ہوجانا چاہئے تھی۔ بظاہر یہ ایک ظالمانہ فیصلہ لگتا ہے مگر مناسب سزا نہ ملنے کی وجہ سے مجرموں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ بلا خوف و خطر اس نہایت گھناؤنے جرم میں دھڑا دھڑ ملوث ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)


اگر ہم زرا سی کوشش کریں اعداد و شمار جمع کرنے کی تو وہ ہوشربا حقائق سامنے آئیں گے کہ خود سے بھی نظریں ملانا مشکل ہو جائے گا۔ ملک بھر سے کچھ اسطرح کی خبریں موجود ہیں کہ لاہور میں ایک چودہ سالہ بچی کو اسی کے گھر میں زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا، ناظم آباد کراچی میں ایک ڈیڑھ سال کی بچی کو پڑوسی نے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لاتعداد ایسے کیسز موجود ہیں جن میں کم عمر بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد انہیں قتل کردیا گیا ہو۔

غرض یہ کہ ملک بھر میں جہاں بھی چلے جائیں یہ دکھ بھری داستانیں ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ ان واقعات میں عمومی طور پر قریبی لوگ ملوث ہوتے ہیں، جن میں رشتہ دار، محلے دار ، پڑوسی علاقے میں کام کرنے والے ، ملنے جلنے والے سب شامل ہوتے ہیں۔ اور جس کو جب موقع ملتا ہے ہاتھ دکھا جاتا ہے۔ یہ غیر انسانی بلکہ شیطانی عمل ہمارے معاشرے میں ہر جگہ بڑے پیمانے پر بلا خوف و خطر ہو رہا ہے۔

جس کی وجہ مناسب قانون کا نہ ہونا ہے جو ان درندوں کو ان کے جرم کے مطابق سزا دے سکے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بہت تیزی سے پھیلنے والا جرم نو عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہے۔ یہ گناہ کہیں بھی کیا جانا ممکن ہے، چاہے وہ گھر ہوں، اسکول ہوں، مذہبی تعلیمی ادارے یا کوئی کھیت، کھلیان، ورکشاپ، کارخانہ وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے معاشرے کا ایک عجیب و تکلیف دہ المیہ یہ بھی ہے کہ جو مظلوم بچیاں اس گھناؤنے عمل کے دوران قتل کردی جاتی ہیں ان کو عموماً موت کے بعد بھی انصاف نہیں ملتا، مگر جو زندہ بچ جاتی ہیں وہ بھی پوری زندگی ایک ایسے گناہ کی سزا کاٹتی ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہوتا۔

بلکہ وہ تو خود اس کا شکار ہوئی ہوتی ہیں ، مگر ہمارے معاشرے، خاندان اور خود اپنے گھرانے میں یہ مظلوم کبھی بھی ایک باعزت مقام نہیں حاصل کرپاتیں۔ وہ کبھی بھی آزادانہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتیں، اسکول نہیں جاسکتیں کہ ہر جگہ ان کی بے عزتی کی جاتی ہے ، ان پر طنزیہ فکرے کسے جاتے ہیں اور انہیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان لڑکیوں سے عموماً لوگ شادی کرنے سے بھی گریزاں رہتے ہیں۔

یہ مظلوم بچیاں زندگی کو ایک بوجھ کی طرح گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
اس بد ترین جرم سے نمٹنے کیلئے پاکستان میں کوئی مناسب قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان کے قانون کی دفعہ 1860 (PPC)میں بچوں سے زیادتی کو محض تشدد کی ایک قسم گردانا گیا ہے جو اس جرم کی ماہیت کے اعتبار سے ناکافی ہے۔ اس تناظر میں Section 90 of the PPC کے مطابق اگر بارہ سال سے کم عمر بچہ رضامندی سے کسی عمر رسیدہ شخص کے ساتھ جنسی تعلق میں ملوث پایا جائے تو وہ بھی کوئی بڑا قابل سزا جرم نہیں ہے۔

مذید برآں انسداد دہشت گردی کی دفعہ Anti-Terrorism Act 1997، کے مطابق کسی بھی نوعمر بچے سے زبردستی زیادتی ایک دہشت گردی کا عمل گردانا جائے گا۔ مگر ان مجرموں کو موجودہ قانون کے مطابق اس بدترین جرم کے بدلے میں دی گئی سزائیں ناکافی ہیں۔
بچوں کی فلاح و بہبود اور بچوں کے حقوق کا علمبردار ادارہ ساحل نے ایک رپورٹ Cruel Numbers 2019 شائع کی ہے جس کے اعداد و شمار نہایت ہوشربا ہیں ۔


 اس رپورٹ کا مقصد نوعمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور نوعمری کی شادیاں اور ان کے نقصانات کو اجاگر کرنا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کے تمام صوبوں بشمول آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کل 2846 کیسز اخبارات کے زریعے رپورٹ ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق 0-5 سال تک کے بچے تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے گئے، جو نہایت شرمندگی اور افسوسناک امر ہے۔

اس میں جرائم کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ: 778 اغواء کی وارداتیں ہیں۔ 405 گمشدہ بچے، 348 کیسز لڑکوں کے ساتھ غیر فطری عمل کے ہیں۔ 279 کیسز عصمت دری کے ہیں۔ 210 کیسز میں عصمت دری کی کوشش کی گئی۔ 205 کیسز میں اجتماعی زیادتی لڑکوں کے ساتھ اور 115 کیسز اجتماعی زیادتی کے کیسز صرف ایک سال میں وقوع پزیر ہوئے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ہم ایک اسلامی جمہوری ملک ہیں اور ہمارے پاس ہر دو قسم کے قوانین موجود ہیں جن کی رہنمائی میں ایسی قانون سازی کی جاسکتی ہے کہ جن کو بروئے کار لاکر ان بدترین جرائم کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔

باقاعدہ قانون کے نہ ہونے یا کمزور دفعات کا فائدہ اٹھاکر یہ خون آشام بھیڑیے معصوم بچوں کو نوچ رہے ہیں اور ان کی ہمتیں اب اتنی بڑھ چکی ہیں کہ وہ بلا خوف و خطر مصروف کار ہیں۔ ملک بھر میں ایسا ہی ہو رہا ہے جیسے ہی کوئی معاملہ اخبارات میں آتا ہے لوگ شور مچاتے ہیں مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں مگر پھر معاملات سرد خانوں کی نظر کر دیئے جاتے ہیں۔

یہ ہماری قومی اخلاقی کمزوری کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ ہماری قومی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ من حیث القوم ہمارے ناپائیدار رویوں کو اجاگر کرتی ہے، یہ ہماری دین سے دوری کا رونا روتی ہے۔
 ہم اگر اپنے اردگرد کے ممالک پر نگاہ ڈالیں تو باآسانی پالیں گے کہ وہاں ان جرائم کی سزا عموماً سرعام سزائے موت (پھانسی ) ہے۔ جو اس طرح کے جرم کے بدلے میں ایک صائب عمل ہے۔

جب ہمارے ہمسائے ایسے اقدامات کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے قانون دان، دانشور، اسلامک اسکالرز موجود ہیں سب ساتھ مل کر بیٹھیں اور اس معاملے کو ترجیحی بنیادو ں پر لیں ، اسے اپنے گھر اور اپنے ضمیر کا فیصلہ سمجھ کر اس پر کام کریں۔ اگر ایک ایماندار اور تکنیکی طور پر مضبوط لوگوں کا ایک گروپ اس خاص قانون سازی اور اس کی عمل پزیری کے لئے بنا دیا جائے، اور خود وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی نگرانی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس قبیح جرم کی کمر توڑنے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔ اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا جس کا خمیازہ بیچارے مظلوم بچے بھگت رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :