ہم کرونا سے ڈرنے والے نہیں

پیر 1 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ہم پاکستانی اپنے عمومی رویوں میں بہت ہی انوکھے اور لاجواب ہیں۔ ہم اگر نہیں ڈرتے تو شیر سے نہیں ڈرتے لیکن اگر ڈرنے پر آجائیں تو چوہا بھی ہماری چیخیں نکالنے کیلئے کافی ہے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ بلا خوف اس طرف دوڑ لگا رہے ہوتے ہیں جہاں بم پھٹا ہوتا ہے، ایسے میں انہیں خطروں کے کھلاڑی کا لقب دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جب ہمارے ملک میں محض چند سو افراد کرونا وائرس کا شکار تھے تو عالم یہ تھا کہ ہر شخص سراسیمہ اور پریشان نظر آرہا تھا، دور دور سے بات کررہا تھا، ماسک بھی پہنا جا رہا تھا اور گلوز بھی مگر جب تعداد چالیس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تو حال یہ ہے کہ عید کی خریداری ایسے کی گئی کہ کبھی عام حالات میں آنے والی عیدین پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔

اب سارے بازار آباد ہیں ، دکانیں جگمگا رہی ہیں، لوگ بے فکری سے چنگ چی رکشہ میں گھس گھس کر سفر کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ہاتھ بھی ملائے جا رہے ہیں اور جھپیا ں بھی ڈالی جا رہی ہیں۔ تو کیا ہم اس بات کے عادی ہو چکے ہیں کہ جب تک آگ میرے گھر تک نہیں آئے گی مجھے حالات کی سنگینی کا یقین ہی نہیں آئے گا۔ کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ جن ذہنی کیفیات کا شکار ہیں اس حوالے میں ہماری رہنمائی کیلئے کبلر روز ماڈل کا فلسفہ موجود ہے جو انسان کے کسی حادثے کا شکار ہونے کی صورت میں اس پر مرتب ہونے والے اثرات کا مطالعہ فراہم کرتا ہے۔

جب کبھی کوئی انسان کسی سانحہ، قدرتی آفت یا حادثہ سے دوچار ہوتا ہے تو اس کی شخصیت پر پانچ مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ انکار :
 یعنی حقیقت حال سے انحراف کرنا، کسی بھی وقوع پزیر حادثے کی حقیقت سے انکار کرنا، مثال کے طور پر کرونا کو وباء نہ ماننا، اور اس بات کو تسلیم نہ کرنا کہ وہ خود بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

یہاں تک کہ اگر وہ ان کے اردگرد پھیل بھی رہا ہو تو بھی خود کو مختلف طفلی تسلیوں سے بہلاتے رہنا ، جیسے یہ کہتے رہنا کہ کرونا ہم تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ ہم ایک بہت ہی گرم علاقے میں رہتے ہیں، یہ گرمی میں اثر نہیں کرتا ، وغیرہ وغیرہ۔
۲۔ غصہ:
 ہر وقت صرف اس لئے غصے میں بھنّائے ہوئے رہنا کہ اس کرونا کی وجہ سے ہماری آمدنی متاثر ہو رہی ہے، زندگی ایک قید خانہ بن کر رہ گئی ، کیسے کمائیں کیسے زندگی کی ضرورتیں پوری کریں گے۔

زندگی کیسے پرانے ڈھب پر آئے گی ، اس لاک ڈاؤن نے تو زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ 
۳۔ سودے بازی:
 دل ہی دل میں جلتے کڑھتے رہنا ، اور خود ہی خود کو تسلیاں دیتے رہنا کہ کرونا کسی صورت ہم تک نہیں پہنچ پائے گا، لہذا لاک ڈاؤن بھی نہیں ہوگا اور ہم ویسے ہی ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہیں گے جیسے کہ پہلے گزارتے تھے۔

۴۔ افسردگی یا ذہنی دباؤ:
 کرونا اور لاک ڈاؤن کے بارے میں سوچ سوچ کر دل و دماغ پر ایک مسلسل اداسی طاری رہتی ہے، جو ذہنی کشمش اور جھنجھلاہٹ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، یوں دل و دماغ پر ایک عجیب سی یاسیت طاری رہتی ہے۔ جو دماغی اور جسمانی صحت پر بہت ہی برا اثر ڈالتی ہے۔
۵۔ قبولیت یا منظوری: 
 آخری صورت یہی رہ جاتی ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے کہ واقعی کرونا ایک خطرناک اور جان لیوا وباء ہے، اور ہمیں نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ ہی گزارہ کرنا ہے۔

ہمیں مفروضوں کی بجائے حقیقت پسندی کو اختیار چاہئے، اور تمام مروجہ احتیاطی تدابیر کو پورے اہتمام کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے، یہ نہ صرف اپنی ذات کے لئے ضروری ہے بلکہ ہم سے وابستہ ہر شخص کی صحت و زندگی کیلئے ضروری ہے۔
مندرجہ بالا پانچ درجات صرف کرونا کی حد تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ انسانی زندگی میں آنے والے تمام حادثات، مسائل و آلام میں بھی ان پانچ ذہنی تکالیف سے سابقہ پڑ سکتا ہے اور انسان ان پانچ کیفیات سے دوچار ہو سکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں عقلمند انسان کیا کرے؟ کیا خود کو ان کے حوالے کردے یا بہادری سے حالات کا مقابلہ کرے، ضروری ہے کہ درجہ اول سے لیکر آخر تک ہر مرحلے پر خود کو مضبوط کیا جائے اور آنے والے حالات سے مقابلے کیلئے خود کو تیار کیا جائے ۔ مگر وہ لوگ جو ڈر گئے یا سستی دکھائی اور کسی طرح خود کو کسی بھی مرحلے میں الجھنے سے نا بچا پائے اور اس کا شکار ہوگئے تو پھر بہت ممکن ہے کہ یہ لوگ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائیں ۔ اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوکر رہ جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :