کورونا کی وباء اور تعلیمی نظام کی بد حالی

منگل 21 جولائی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ایک چینی کہاوت ہے کہ اگر ایک سال کی اقبال مندی چاہتے ہو تو فصلیں اگاؤ، اگر سو سال کی اقبال مندی چاہتے ہو تو پھل دار درخت اگاؤ لیکن اگر ہمیشہ کی اقبال بندی چاہتے ہو تو اپنی نسلوں کو تعلیم سے آراستہ کرو، اپنی نسلوں کو تعلیم یافتہ بناؤ۔
گو کہ دنیا نے بڑ ے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے مگر کورونا کی وباء نے دنیا کو بہت ہی عجیب صورتحال و مشکلات سے دوچار کردیا ہے، اس وقت حالت یہ ہے کہ معاشرتی نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے، کاروبار اپنے اپنے بد ترین دور سے گزر رہا ہے، دنیا کو معاشرتی، سماجی اور کاروباری بدحالی کا شدید سامنا ہے۔

لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، بہت سارے کاروبار ختم ہو نے کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ سب سے خوفناک اثر جو اس وباء نے انسانی زندگی پر ڈالا ہے وہ موت کا خوف ہے، لوگ مر رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ طبی معاونین جو لوگوں کی جان بچانے پر معمور ہیں خود اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

(جاری ہے)


ایسے میں دنیا کو جو سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے وہ تعلیمی نظام کا مفلوج ہوجانا ہے۔

دنیا بھر میں اس وباء کے خوف سے تعلیمی ادراوں کو بند کرادیا ہے، اس وباء کا سب سے نقصاندہ پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کے طالب علم اپنی تعلیم جاری رکھنے سے محروم ہو گئے ہیں، اون لائن کلاسز وہ نتائج فراہم نہیں کرسکتیں جو باقاعدہ جماعت میں موجودگی سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو بہت بڑا علمی خلاء پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، کہ ایک پوری کی پوری نسل علم کے اس معیار سے محروم رہ سکتی ہے جس کی دنیا بھر کو اشد ضرورت ہے اور رہے گی۔


ہم اس کالم کے ذریعے اس نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس مشکل وقت سے کیسنے نمٹا جائے اور طالم علموں کو کس طرح سے سہولت فراہم کی جائے کہ وہ اپنی تعلیم کو بھرپور طریقے پر جاری رکھ سکیں۔ ہمای تجویز کے مخاطب تعلیمی ادراروں کے سربراہان اور ملکی تعلیمی نظام کے سربراہان ہیں کہ وہ کس طرح اس بحران پر قابو پاسکتے ہیں۔ وہ کیا اقدامات اور تیاریاں ہیں جو اس وباء کے دوران طالب علموں کے علمی سفر کو رواں رکھ سکتی ہے، اس ضمن میں جہاں اساتذہ کا اہم رول ہے وہیں والدین او ر خود طالب علم بھی برابر کے شراکت دار ہیں۔

کہ ان کی بھر پور شرکت کے بغیر سیر حاصل نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دنیا بھر میں اس بات کو ترجیح دی جارہی ہے کے گھر بیٹھے اون لائن کلاسسز کی سہولت فراہم کی جائے۔ اور اس میں بہم پہنچائی جانے والی سہولوتوں کو اعلی درجات پر مہیا کیا جائے، ایک مکمل نظام وضع کیا جاچکا ہے جس سے ہر ملک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

جس میں اون لائن لیکچرز، Digital Assignments ساتھ ساتھ جماعت کی تدریسی کتب کا مطالعہ باقاعدگی سے لازمی بنا کر عمدہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، نصاب کو وضع کرتے وقت اساتذہ کو طالب علموں کو جانچنے کا نظام وضع کرنا ہوگا۔ جووباء سے متاثرہ تعلیمی نظام کو نہ صرف چلا نے میں مددگار و معاون ہو سکتا ہے بلکہ وباء کے بعد بھی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا نے گذشتہ پچاس سال سے ایسے برے حالات کا سامنا نہیں کیا تھا۔

جبکہ اس وباء سے پہلے دنیا بھر میں تعلیم کے میدان میں زبردست ترقی و ترویج دیکھنے میں آئی تھی۔ کورونا کی وباء نے تعلیمی نظام پر زبردست منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ جس کا تعلیم کے توسیعی اداروں نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کی سنگینی کا دنیا کو اندازہ تھا۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنے تعلیمی اداروں کو روبرو کلاسسز سے روک دیا ہے اور ورچوئل تعلیی نظام اپنانے کی ہدایت کی ہے۔

جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو فوری طور پر اس نئے نظام میں ڈھلنا پڑ رہا ہے۔ اس مختصر مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ اساتذہ کرام، تعلیمی سربراہان، اور متعلقہ ریاستی عہدیداران کی رہنمائی کی جا سکے۔ جو لازمی طور پر ان حالات میں تعلیمی نظام میں بدلاؤ اور اس کے بثبت نتائج کے لئے کوشاں ہیں۔ کچھ ممکنہ تجاویز یہ بھی ہو سکتی ہیں جیسے
مخصوص نظام تعلیم کی تیاری اور جانچ
مختلف درجات کے طالب علموں کی یقینی موجودگی
طلباء اور والدین کو نئے تعلیمی نظام کی موجودگی اور عمدہ کارکردگی کی یقین دھانی کرایا جانا
نیا دور سے پڑھایا جانے والا نظام تعلیم آسان اور بالضرور ہر طالب علم کی دسترس میں ہونا
نصاب کی بہت احتیاط سے موجودہ حالات اور نظام تعلیم کے تناظر میں تیاری
نہایت احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ نظام ، نصاب اور طالب علموں کی مسلسل پڑتال
وباء کے بعد دوبارہ عام حالت پر لوٹنے کی تیاری
اگر ملک میں وباء میں کمی ہو رہی ہو تو مکمل احتیاط کے ساتھ تمام ضروری حکومتی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے، طلباء کو اسکول بھی بلایا جا سکتا ہے ۔

بشرطیکہ سماجی فاصلہ ہر صورت ممکن بنا یائے، اگر کلاس میں طالب علم زیادہ ہوں تو مختلف شفٹ میں یا دنوں میں تقسیم کرکے بلایا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں وباء کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے حکومتوں نے فوری پاپندی کے احکامات جاری کردئے تھے جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں اور متعلقہ اداروں کو نئے تعلیمی نظام کی تیاری کا مناسب وقت نہیں مل سکا۔


اساتذہ اور تعلیمی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طالب علموں کے پاس ان کی تدریسی کتب موجود ہوں اور وہ تمام اون لائن سرگرمیوں میں پوری طرح شریک بھی ہو رہے ہوں۔ تمام تر کچک کے باوجود اس نظام میں طالب علم کی حاضری یقینی بنائی جانی چاہئے۔
کیونکہ پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے اور یہاں تعلیم پہلے بہت زیادہ نظر انداز کی جاچکی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر سے معلومات اکھٹا کی جائیں اور ان معلمومات کے تناظر میں ہمارے حالات کے اور وسائل کے مطابق فوری فیصلے کئے جائیں تاکہ ہمارے طالب علم کسی قسم کی تعلیم سے محرومی کا شکار نہ ہو سکیں۔


یہ ایک انتہائی ضروری اور اہم معاملہ ہے جس میں حکومت وقت کے ساتھ ہر شخص کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ ورنہ تعلیم کے معاملے میں ہمارے جو حالات ہیں ان سے کون واقف نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور ہماری ایک پوری نسل ہماری کوتاہی کا شکار ہو جائے، جس کا ازالا شاید ہم کسی صورت نا ادا کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :