رشتوں ناطوں کی بگڑتی ہوئی شکلیں

پیر 10 اگست 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

چند روز پہلے ایک نہایت ہی عجیب اور تکلیف دہ خبر نے میری توجہ اپنی جانب کرلی، خبر کچھ یوں تھی کہ سگی بہن نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر چھوٹے بھائی کو اغوا کر لیا اور بیوہ ماں سے بیس لاکھ تاوان مانگ لیا۔ معاملہ بن نہیں پایا کہ لڑکے کی حاضر دماغی کی وجہ سے اغواء کار پکڑے گئے اور پتہ چلا کہ اغوا کاروں میں سگی بہن اور بہنوئی بھی شامل ہیں۔

بلکہ تفتیش سے معلوم ہوا کہ اصل مجرم تو یہ دونوں ہی تھے اور بے روزگاری سے تنگ آکر یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا، ایک مثال عام تھی کہ ڈائن بھی سو گھر کھاتی ہے تو ایک گھر چھوڑ ہی دیتی ہے مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ وقت اور بدلتے حالات نے سب کچھ بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور اب کوئی کہاوت، کوئی کہانی کوئی نصیحت کوئی ہدایت کارآمد نہیں رہ گئی۔

(جاری ہے)

سارے اقدار، ساری تہذیب محض قصہ کہانی بن کر رہ گئے ہیں اور معاشرے میں ان کی جگہ بس رشتوں کی بے قدری تعلق کی کمزوری اور مطلب پرستی نے لے لی ہے، اپنے مطلب کی خاطر بیٹا ماں پر بہیمانہ تشدد کر سکتا ہے، باپ کی جان لے سکتا ہے، بھائیوں سے ناطہ توڑ سکتا ہے اور بہنیں تو پہلے ہی بڑی ناانصافی اور ظلم کا شکار ہیں۔ تو کہیں یہ اس بات کا پیش خیمہ تو نہیں ، مگر بیٹیا تو ماں با پ کی بڑی ہی سگی اور قربان ہوجانے والی ہوتی ہیں، بھائی کچھ بھی زیادتی کرلیں مگر ان کا پیار اور مان اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

تو پھر یہ کیا ہوا کہ بہن نے بھائی کے اغواء میں ساتھ دیا اور ماں جس نے اسے جنم دیا پالا پوسا جوان کیا شادی کی اس کو اس روحانی کرب سے دوچار کیا کہ جس کے متعلق عمومی طور پر کوئی بیٹی شاید سوچ بھی نہ سکے۔
مندرجہ بالا واقعات کے تناطر میں یہ بات باآسانی کہی جا سکتی ہے کہ وقت نے رشتوں کی اہمیت اور ان کے وقار کو بالکل ہی گہنا دیا ہے، اور کوئی بھی کسی سے بھی بدترین بدسلوکی کی توقع کر سکتا ہے کیونکہ جب والدین اور بھائی بہن ہی ناچاکی اور بدسلوکی سے محفوظ نہیں تو دوسرے کیا امید رکھ سکتے ہیں۔

لہذا معاشرہ ایک عجیب سی انارکی و بے راہ روی کا شکار ہے جہاں معاملات صرف اپنے ذاتی مفادات اور ضرورت کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں، مطلب پرستی ہر معاملے کا جز و لازم بن چکا ہے۔ تو یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ اور کیا اس کا کوئی حل ہے، ان تمام باتوں کی بنیادی وجہ والدین کا بچوں پر بھرپور توجہ نہ دینا ہے، والدین کا بچوں سے کمزور باہمی تعلق بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

والدین مار پیٹ اور سختی کو تربیت سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا کریں ہم نے تو بہت کچھ کر کے دیکھ لیا مار مار کر تنگ آگئے مگر یہ سدھرتا ہی نہیں۔ یہ ایک بہت ہی غلط نظریہ ہے، اولاد کو مار مار کر نہیں سدھارا جا سکتا، اس کو دوست بنانا پڑتا ہے، اس کی مشکلات کو ٹھنڈے دل سے سن کر مشورہ دیا جاتا ہے ، اس کے ساتھ وقت گزارا جاتا ہے تاکہ اس کے نفسیاتی معاملات کو سمجھا جا سکے، جبکہ ہمارے ہاں عموما بچوں کو کسی مہنگے اسکول یا مدرسے میں ڈال کر تربیت سے بالکل ہی ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے فیسوں کی شکل میں تربیت کا پورا حق ادا کر دیا ہے ہے مگر یہ حقیقت نہیں ہے اور شاید تربیت کے بگاڑ اور کمی کی یہی پہلی سیڑھی ہے جو بچوں کو بداخلاقی اور بے راہ روی کی اندھی کھائی تک لے جاتی ہے۔

بہت ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو اکیلا نہ چھوڑیں ان سے دوستانہ تعلق رکھیں اور ان کی مشکلات کو چاہے وہ اہم نہ ہوں مگر سنیں، تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو کہ وہ آئندہ جب کسی مشکل میں ہوں تو کسی اور کی بجائے آپ سے بات کر سکیں۔ کیونکہ دنیا میں آپ سے بہتر مشورہ کوئی اور دے ہی نہیں سکتا۔ لہذا اپنے بچوں اپنے درمیان کسی تبادلہ خیال کی خلج کو حائل نہ ہونے دیں۔

بچوں کو یہ اعتماد دیں کہ وہ جب بھی آپ سے بات کریں گے آپ ان کو سنیں گے۔ اگر ممکن ہو تو روزانہ کچھ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں چاہے بچے کسی بھی عمر کے ہوں۔ آپ کا ہر عمل ان کو تقلید فراہم کریگا، لہذا آپ کا ہر عمل ہر بات نپی تلی اور پر اعتماد ہونا چاہئے، تاکہ بچہ بے اعتمادی کی الجھن کا شکار نہ ہو۔ روزانہ گھر میں دین کی بات بھی کی جانی چاہئے اور عملی طور پر بھی کر کے بچوں کو دکھا نا ہے کہ ان کی عادتیں پکی ہو جائیں۔


ٓآپ کو شاید یقین نہ آئے مگر ایک نہایت ہی کریہہ اور گھناؤنا واقعہ مشاہدے میں آیا ہے جس میں چند لڑکوں نے ایک گھریلوں پالتو بلی کے ساتھ وہ کچھ کیا جس کا سو چ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، اب یہ لڑکے زندگی بھر کے لئے اس بدنامی کے ساتھ جئیں گے، والدین بھی شرمندگی کا شکار رہیں گے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے، جی ہو بھی سکتا ہے مگر ایسے معاشرے میں جہاں نوے فیصد مسلمان ہوں ایسا ہوجانا ایک المیہ اور ایک تازیانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

یقینا والدین کی جانب سے تربیت کی کمی رہی ہوگی جب ہی تو وہ لڑکے اتنے دن تک ایک معصوم جانور کے ساتھ جنسی بد فعلی کرتے رہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ نوجوان نسل کس قدر نفسیاتی مشکلات کا شکار ہے اور کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا نہیں کیونکہ وہ اکیلے ہیں جو ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں وہ کر نہیں رہے تو اس خلا کی وجہ سے ان کے دل میں جو آرہا ہے کر رہے ہیں۔

آج کل بچے زیادہ وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں جو والدین کی نظر سے عموما اوجھل ہی ہوتا ہے، اگر باہر بھی جاتے ہیں تو دوست کیسے ہیں والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ جبکہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کی ہر بات سے واقف ہوں۔
اب بھی وقت ہے ہمیں جاگ جانا چاہئے، کیوں کہ یہ واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں، اگر کہیں ان کا تناسب بڑھ کر آٹے جتنا ہوگیا تو کیا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر صاحب اولاد اپنی اولاد کی پوری ذمہ داری اٹھائے، اور اسے اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے اس کی بہترین تربیت کرنے کی کوشش کرے۔ تربیت کے رہنما اصول دین و دنیا دونوں کے حساب سے موجود ہیں کسی کو ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہمارا معاشرہ اس بات کا گواہ ہے کہ ابھی چند دھائیوں پہلے تک ہمارا گھریلو نظام یورپ و امریکہ میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اگر آج ہم نے اس معاملے کی اہمیت کو نہ سمجھا تو کل بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :