چونا (کھانے کا اور، لگانے کا اور)

بدھ 21 اکتوبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

بچپن میں ایک پہیلی بوجھتے تھے جس کے دو سوالوں کا ایک ہی جواب تھا، سموسہ کیوں نہیں کھایا؟ جوتا کیوں نہیں پہنا؟ جواب تھا کہ تلا نہ تھا۔ بالکل اسی طرح آج لوگ کہتے ہیں کہ چونا کھایا جائے یا لگایا جائے، کاٹتا ہے۔ چونے اور انسان کا ساتھ صدیوں پرانا ہے یہ عمارتوں کی تعمیر سے لیکر پان پر لگا کر کھائے جانے تک کثیر الاستعمال عنصر ہے۔

جو حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی، کمال یہ ہے کہ کاٹتے دونوں ہی ہیں، مگر حقیقی جز وقتی کاٹتا ہے اور مجازی کل وقتی۔ چونا اپنی ذات میں ایک ہمہ جہت کاٹنے والا عنصر ہے کمال یہ ہے کہ حقیقی چونے کے کاٹ کی تکلیف کچھ دیر جبکہ مجازی چونے کے کاٹ کی کسک عمر بھر رہتی ہے۔
چونا اینٹوں کو جوڑ کر عمارتیں بنانے، عمارتوں پر استرکاری یعنی قلعی کرنے سے لیکر پان پر لگا کھانے اور لوگوں کو لگا کر کھانے تک بڑی فراوانی سے استعمال کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یعنی لفظ چونے کے معانی بھی کاٹے جانے کی ماہیئت پر منحصر کرتے ہیں کہ کاٹ حقیقی چونے کی ہے یا مجازی چونے کی ، موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر حقیقی چونے کو قوت گویائی مل چائے تو وہ سب سے پہلے اپنا نام بدلنے کو ترجیح دے گا۔ جس طرح ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، دکھانے کے اور ہوتے بالکل اسی طرح چونا کھانے والا کچھ اور، لگانے والا کچھ اور ہوتا ہے۔


گزرے وقتوں میں اگر پنواڑی چونے کو کبھی صحیح سے بجھا نہیں پاتا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ چونا بڑا تیز تھا منہ کٹ گیا، اور آج لوگ کہتے ہیں کہ یار بندہ بڑا چونا باز تھا سب کچھ لوٹ کر لے گیا۔ پان پہ لگے چونے سے کٹا منہ تو چند روز میں ٹھیک ہوجاتا ہے مگر جو بندے کو دھوکے کی شکل میں چونا لگتا ہے کبھی کبھی اس کی تکلیف انسان زندگی بھر محسوس کرتا ہے۔

بیشک آپ لاکھ احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں اور چوکنّا رہیں۔ مگر کیفیت ، نہ جانے کس گلی میں آپ کو چونا لگ جائے، کے مصداق ہی رہتی ہے اور، آپ کسی بھی وقت چونا زدگی کا شکار بن سکتے ہیں، شاید اسی لئے شاعر نے چونازدگی کا شکار لوگوں کو خفیہ پیغام دیا تھا کہ تو لاکھ چلے ری گو ری تھم تھم کے ، مطلب شاعر چونا متاثرین سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ، تم لاکھ احتیاط کرلو مگر چونے کے شکاری تمہیں ڈھونڈ ہی لیں گے ، کیونکہ تیرے مال میں گیت ہیں چھن چھن کے۔


دور حاضر میں چونا ایک کثیر الاستعمال اصطلاح بن کر رہ گیا ہے، جو کشرت استعمال کی وجہ سے بہت ہی عام طریقہ واردات بن کر رہ گیا ہے۔ اب سے دس بیس سال پہلے یا تو رنگساز گھروں پر چونا لگاتے تھے یا پنواڑی پان کے پتے پر۔ دونوں صورتوں میں حکم چونا لگوانے والے کا ہی چلتا تھا مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں ہر دوسرا شخص اسی خدمت پر لگا ہوا ہے۔


چونا دراصل چٹانون سے نکلنے والا ایک پتھر ہے، جسے ہمارے اجداد کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور ہم کسی اور مقصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ عمارتوں پر چونے سے استر کاری کرتے تھے، ان کے پاس جو چونا ہوتا تھا وہ سفید رنگ کا ہوتا تھا، جسے چھوا اور حسب ضرورت استعمال کیا جا تا تھا۔ جبکہ جو چونا ہم آج استعمال کر رہے ہیں وہ دکھائی تو نہیں دیتا مگر اس کا نتیجہ ہمیشہ سیاہ ہی ہوتا ہے، اور اسے چھوا بھی نہیں جاسکتا ہے یہ تکلیف کی شدت سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

چونا لگانے کی بھی کئی اقسام ہیں بے ضرر چونا لگانا، ہلکا چونا لگانا اور شدید چونا لگانا، مثلاّ صاحب کی آمد پر گملوں او ر در و دویوار اور راستوں پر چونا لگانا، تاکہ صاحب خوش ہوں اور ان کی نااہلی اور کام چوری پر سرزنش نہ کر سکیں، یہ ایک بے ضرر چونا لگانے کی قسم ہے جس سے کچھ بڑا نقصان یا فائدہ نہیں ہوتا، صرف صاحب کے دماغ کے کیڑوں کو غذا مل جاتی ہے اور وہ پرسکون رہتے ہیں۔

گذشتہ ادوار میں جو لوگ مستقل اس خدمت سے وابسطہ ہوتے تھے ان کو ٹھگ کہا جاتا تھا جن میں بنارسی ٹھگ اپنی اعلی کارکردگی کی بنیاد پر بہترین چونا لگانے والے مانے جاتے تھے۔ مگر اب لگتا کچھ یوں ہے کہ چونا لگانے کی ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے کہ بنارسی ٹھگ موجودہ لوگوں کے سامنے طفل مکتب نظر آتے ہیں۔
چونا لگان کی وباء کچھ اس قدر عام ہے کہ کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی طرح چونا زدگی کا شکار ہوسکتا ہے۔

عموماّ ہوتا یہ ہے کہ مظلوم چونا زدگی کا شکار اپنی دکھ بھری داستان کسی کو سنا بھی نہیں سکتا کہ مذاق اڑائے جانے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔
چونا زدگی کے لئے وقت ، جگہ اور چیز کی محتاجی بالکل بھی نہیں ہے ، تربوز سے لیکر کار تک اور سونے سے لیکر جائیداد تک جب جیسا شکار پھنس جائے چونا لگا دیا جاتا ہے۔ کپڑے کی دکانیں، کھانے پینے کے مقامات، الیکٹرونکس مارکیٹس، موبائل فون مارکیٹس، لاری اڈّے، بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن، چونا لگانے کی فیکٹریز ہیں اور آپ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔

یہ چونے کی ایک خاصی تکلیف دہ اور ضرر رساں قسم ہے مگر ایک قسم ایسی بھی ہے جو ان سب کی سرتاج ہے وہ ہے دوائیوں کے ذریعے چونا لگانے والی قسم جو نقلی دوؤں کی شکل میں انسانی جانوں کو چونا لگا رہی ہے، یہ قسم نہایت ہی خطرناک اور بااختیار چونا فروش ہوتے ہیں جو چونا مافیا بطور ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز میں پائے جاتے ہیں۔ امر حیرت یہ ہے کہ سوئی سے لیکر جہاز تک اور دوستی سے لیکر رشتہ داری تک چونا کہیں بھی کسی بھی طرح استعمال ہو سکتا ہے۔

یہاں تک سنا گیا ہے کہ بعض چونا چیمپئن تو رشتہ کراتے وقت کوئی اور لڑکی دکھاتے ہیں اور شادی کسی دوسری لڑکی سے کرادیتے ہیں۔ اسی طرح آج کل سب سے آسان اور زیادہ چونا لگانے کا کاروبار آن لائن شاپنگ ہے۔ دکھایا اور بتایا کچھ اور جاتا ہے اور سپلائی کچھ اور کردیا جاتا ہے۔ اس کام میں تو عوام الناس کو اتنا چونا لگایا جا رہا ہے کہ اگر ہمالیہ پہاڑ بھی چونے کا ہوتا تو وہ بھی کم پڑ جاتا۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سنگین چونا لگانے کی قسم بیرون ملک نوکری یا شہریت دلانا ہے۔ یہ چونا کاری بھی نہایت تکلیف دہ اور بھیانک ہوتی ہے، لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی، جائیداد، زیور اور دیگر قیمتی مال و متاع چونے کی نذر کر بیٹھتے ہیں اور بقیہ زندگی محض کف افسوس ملتے رہتے ہیں۔
چین اور چونے میں بھی کچھ عجیب سا تعلق لگتا ہے، چینی مصنوعات کیلئے آجکل لوگ یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ چل گیا تو چاند تک ورنہ شام تک۔

ساتھ ساتھ چونا فروش دکاندار بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر ان چائینیز مصنوعات کی گارنٹی بالکل بھی نہیں لیتے۔ یعنی یہی چاند اور چائنا والا چونا ہے۔
ہم اسے جو بھی نام دے لیں چونا کہہ لیں، ٹوپی کہہ لیں، جھانسا کہہ لیں، ٹھگی کہہ لیں یا اور کوئی اصطلاح ایجاد کرلیں مگر ان تمام ناموں سے اس کی اصلیت یعنی دھوکہ و بے ایمانی بدل نہیں جائے گی، اور یہ اٹل ہے کہ دھوکہ و بے ایمانی کسی صورت ، کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں اور اسے کہیں بھی عزت و وقار کی علامات نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس ضمن میں چاہے کیسی ہی لفاظی کرلی چائے، مگر ان کی بدبودار حقیقت نہیں بدلے گی، یہ فریب، دھوکہ اور چالبازی ہی رہے گی جس کی اجازت نہ دین دیتا ہے اور نہ دنیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :