منور حسن ،سچی وکھری سیاست کے امین

جمعہ 26 جون 2020

Zain Siddiqui

زین صدیقی

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن کراچی کے مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے ۔اناللہ وانا الہ راجعون ۔منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر رہے۔ا گست 1944 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ سید منور حسن کاخاندان پہلے لاہور آیا پھر اس نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا ۔انہوں نے 1963کو جامعہ کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا، پھر1966 میں جامعہ کراچی ہی سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔

آپ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی ٰ بھی رہے ۔آپ 1959 نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے ۔وہ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی تھے ۔زمانہ طالب علمی ہی میں سیدمنور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقاریرمیں مشہو ہوگئے تھے۔
آپ 1967میں جماعت اسلامی کے رکن بنے ۔

(جاری ہے)

بطوررکن سیاسی وینی سرگرمیاں شروع کیں ۔ آپ نے مولانا مودی رحمتہ اللہ علیہ کی فکر اور تعلیمات کا ادراک کرتے ہوئے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔


 قاضی حسین احمد جب امیر تھے تو آپ ان کے دور میں جنرل سیکریٹری کے منصب پر براجمان رہے اور اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیں ۔2009میں آپ امیر جماعت اسلامی بنے اور 2014تک امارت کے مکین رہے ۔
یہ سن کر عموماً لوگ حیران ہوئے بغیر نہیں رہتے کہ سید منور حسن نے ابتدا میں بائیں بازوکی سیاست سے آغاز کیا ،مگر بعد میں وہ دائیں بازو کی سیاست کی جانب چلے گئے ۔

انہیں مولانا مودودی کی فکر اور دعوت دین کے کام نے متاثر کیا ۔وہ نہ صرف نظریاتی مخالفین کو بھی صبر وبرداشت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ وہ کہتے تھے کی مخالف نظریے کے دوستوں سے گفتگو میں بہت مزاآتا تھا ۔سیدمنور حسن اپنے مخالفین سے گفتگو کرتے تھے توان کی باتوں کو سننے اور ۔ان میں برداشت کا مادہ تھا۔اس کیلئے مخالفین بھی ان کی بالغ نظری اور وسیع النظری کے معترف تھے ۔


سید منور حسن کی زندگی کے مختلف پہلو تھے ۔وہ نرم مزاح بھی تھے ۔بردبار بھی تھے ۔ان میں تصنع نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔سچے ، کھرے انسان اورصاف ستھری سیات کر نے والے انسان تھے ۔
بحیثیت صحافی میں نے ان کے کئی پروگرام اٹینڈ کیے ۔انہیں بہت منکسرالمزاج اور سادہ طبعیت پایا ۔سیدمنور حسن جو بات کہتے تھے اس پر ڈاٹ جاتے تھے ،پیچھے ہٹنا ان کیلئے ممکن نہیں تھا۔

آج لوگ حالات کے جبر اورقوتوں کے دباوٴ کے باعث لوگ اپنے دیئے ہوئے بیان سے مکر جاتے ہیں ،مگر ان کی طبعیت میں ایسا کچھ تھا نہ مزاج میں ،شاہد انہوں نے اپنی زندگی میں ایک چیز طے کی ہوتی تھی ۔اچھا اور باوقار انسان وہ ہوتا ہے جو حق اور سچ پر ڈٹ جائے ۔
سید منور حسن نے1977میں انتخابات میں بھی حصہ لیا ۔ان کے مدمقابل معروف دانشور جمیل الدین عالی تھے ،لیکن عالی مرحوم کو اس انتخاب میں شکست ہوئی اور آپ بھاری ووٹو ں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔

ان کی اس فتح کے بعد عوامی شاعر حبیب جالب کراچی آئے اور ان کیلئے تقریبات وپروگرامات میں
ان کیلئے نظمیں تک کہیں ۔سید صاحب بلند کردار شخصیت کے مالک تھے ،ان کی ذات پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتاتھا۔سید منور حسن چونکہ دعوت دین کی عظم تحریک جماعت اسلامی سے منسلک تھے اس کیلئے ان کی زندگی دعوت دین کیلئے وقف تھی۔آپ نے اقامت دین کیلئے پھر پور جدوجہد کی ۔

آپ نے اپنے سوچ اور نظریات کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔جماعت اسلامی میں ہونے اور اعلیٰ دینی تربیت کانتیجہ تھا کی کہ آپ نے اسلامی تحریکوں کی پشت بانی کی اور استقامت سے ڈٹے رہے ۔
سید منور حسن جذباتی انسان با لکل نہیں تھے ،ان کی بات میں پختگی ،موقف پر قائم رہنے کی بھی صلاحیت تھی ۔آپ کی شعلہ بیانی کو میڈیا نے بھی خوب کیش کروایا ۔منورصاحب کی جانب سے طالبان سے متعلق بیانات اور امریکی غلامی کا پردہ چاک کرنے کیلئے دیئے گئے بیانات کو خوب مرچ مسالا لگا کر بیان کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ آپ کے بے لاگ بیانات کوجماعت اسلامی میں بھی اندورنی تنقید کا سامنا رہا مگریہ تنقید سید منور حسن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں لا سکی ،نہ ہی ان کا موقف بدلابلکہ اس وقت کے جنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی اورسید منورحسن کا پھرپور دفاع کیا گیا ۔
جماعت اسلامی میں سید منور حسن کے انتقال سے بڑا خلا پیدا ہوا ہے ،ان جیسے باصلاحیت وباکردار انسان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے ہے ۔

آج مخالفین بھی ان کی شخصیت اور سیاسی ودینی خدمات کا اعتراف کر رہے ہیں ۔
آپ26جون2020کو طویل علالت کے بعد کراچی کے مقامی اسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملے ،آپ اسپتال میں وینٹی لیٹر پر تھے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ان کی بے باک ،صاف ستھری سیاست اور دین کی بے مثال خدمت کو اپنی بارگا ہ میں قبول فرمائے اوران کے آخرت کے تمام مراحل آسان فرمائے ،آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :