جماعت اسلامی کا دھرنا اوراصل مسئلہ

پیر 10 جنوری 2022

Zain Siddiqui

زین صدیقی

 بارشوں کے بعد سخت سردی میں سندھ اسمبلی کے باہرجماعت اسلامی کراچی کا دھرنا جاری ہے ۔ جماعت اسلامی کے کارکنان پرعزم ہیں اوروہ دھرنےکے مقام سے مطالبات تسلیم ہوئے بغیر جانے کو بھی تیار نہیں۔
جماعت اسلامی کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کو آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق تشکیل دیا جائےاوربلدیاتی اختیارات کو نچلی سطح پرمنتقل کیا جائے۔


جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ بلدیاتی اختیارات نچلی سطح پرمنتقل کیےبغیرمسائل کراچی شہر کی حالت نہیں بدل سکتی،جبکہ سندھ اسمبلی سے منظورکیے گئے نئےبلدیاتی نظام میں پیپلزپارٹی نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لیے ہیں ،جس سے میئر کراچی کا عہہ محض نمائشی ہو گا ۔
نئے بلدیاتی نظام جسےکالا قانون کہا جارہاہے،میں سندھ حکومت نےتمام وہ اسپتال جوشہری حکومت کے انڈرآتےتھے اپنے کنٹرول میں لے لیے ہیں،جبکہ دیگر وہ ادارے جوشہری حکومت کے ماتحت آتےتھے،انہیں  بھی اپنےکنٹرول میں لے لیا ہے،یہ وہ تمام جبکہ بعض ٹیکسزکی کلیشن کا نظام بھی اپنے کنٹرول  لیا ہے ۔

(جاری ہے)


جماعت اسلامی ہرموقع پر عوامی مسائل کو لے کر احتجاج کرتی رہی ہے، نادرا میں لوگوں کے شناختی کارڈ زکے مسائل ہوں یا کے الیکٹرک کی اوور بلنگ کی،بحریہ ٹاؤن کے متاثرین کے مسائل ہوں یا،سوئی گیس کے،سانحہ بلدیہ ٹاؤن کےمتاثرین ہوں یا نسلہ ٹاور کےمتاثرین کا مسئلہ جماعت نے عوامی مسائل کو حل کرانے کی بھرپورکوشش کی ہے اور اس کیلئے پرسطح پرآواز بھی بلند کی ہے۔


جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی پرگزشتہ 10 روز سے دھرنا دیا ہوا ہے اور یہ سندھ حکومت سے بلدیاتی قانون واپس لینے کیلئے ہے۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ شہرقائد کو میگا سٹی کا درجہ دیا جائے، جماعت اسلامی کراچی نے سندھ حکومت کو بل کی منظوری سے قبل تجاویز بھی دی تھیں،مگر سندھ حکومت نے ان کی کسی تجویزپرعمل نہیں کیا۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی  عددی  اکثریت ہے اورتمام اپوزیشن جماعتیں اس وقت  بلدیاتی بل کے خلاف یک زبان ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ یہ قانون  کسی طور بھی کراچی کے حق میں نہیں۔


کراچی  70فیصد ریونیو جمع کرکے وفاق کودیتا ہے،اس کا پیسہ اس کی ترقی پرنہیں لگایا جاتا ،یہ بڑا سوالیہ نشان ہے،جماعت اسلامی اس  نکتہ پر بھی بات کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کی اس تحریک پراسےایم کیو ایم کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست میں کوئی بھی الزام بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے سو پی پی نے بھی یہ الزام لگایا ہے،تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی سے متعلق ایسی بات کرنا مبالغہ آرائی ہو گی ۔


کراچی میں سیاست تو تمام جماعتیں ہی کررہی ہیں،مگر جماعت اسلامی کی سیاست اور دیگر جماعتوں کی سیاست میں بڑا واضح فرق موجود ہے، دیگر جماعتوں کی سیاست جھوٹ اور مکروفریب کی سیاست ہے ،مال بنانے اور پیسہ کمانے کی سیاست ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست خدمت اور دیانت کی سیاست ہے۔
یہ بات جماعت اسلامی کےمخالفین بھی خوب سمجھتے ہیں کہ یہ ایک منظم جماعت ہے۔

اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتی ،نہ ہے اس کی سیاست کسی کو نیچا دکھانے کیلئے ۔یہ تو ہمیشہ ہی کراچی کے مسائل کے حل کی بات کرتی نظر آئی ہے ۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ شہرقائد کو اس کا اصولی حق ملے ،یہاں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوں ۔یہاں پانی کا مسئلہ ختم ہو۔ یہاں کراچی کے نوجوانوں کو روزگار ملے،یہاں کے لوگوں کے مسائل گلی محلے کی سطح پر حل ہوں ۔


سندھ کےوزیراطلاعات سعید غنی نے ہفتےکو کراچی پریس کلب میں "میٹ دی پریس "میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جماعت اسلامی ایم کیوایم کی طرز کی لسانی سیاست کر رہی ہے۔انہوں نے شہر میں جو بینرآویزاں کیے وہ ایم کیو ایم کے ماضی میں لگائے جانے والے بینرز جیسے ہیں۔جماعت اسلامی لسانیت کو فروغ دے رہی ہے۔دھرنوں یا احتجاج سے ہمیں مجبور نہیں کیا جاسکتا ،اسمبلی میں اکثریت کا فیصلہ چلتا ہے ۔

گنجائش ہوئی ہے ،قانون میں جائز تبدیلی ہو سکتی ہے ،جماعت اسلامی سے پہلے بھی ملے اب بھی ملاقات کریں گے۔
پیپلزپارٹی سندھ پر مسلسل 13 سال سےحکومت کررہی ہے ،جبکہ ایم کیو ایم گزشتہ 35 برس سے سیاسی عمل کا حصہ ہےاور ہر سندھ حکومت کا حصہ بنتی رہی ہے ۔افسوس کی بات ہے کہ آن کی آن میں شہر قائد کو ایک حکم پر سنسان کردینے اورایک دن کی ہڑتال کر کے ملک کی معیشت کو 10 ارب کا نقصان پہنچانے والی ایم کیوایم نے بےمثال طاقت رکھنے کے باوجود یہاں کے باسیوں کو پانی ،گیس ،بجلی ،ٹرانسپورٹ ،گلی محلوں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور شہر میں قتل وغارت گری کے سوا کچھ بھی نہیں دیا ۔


لوگ جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے کبھی لسانی سیاست نہیں کی ،یہ بات پیپلزبارٹی خود اچھی طرح سے سمجھتی اور جانتی ہے۔کراچی میں 2018  کے عام انتخابات  میں  پی ٹی آئی بڑی پارٹی کے طور پر ابھری تھی،مگر یہ بھی مکمل ناکام نظر آتی ہے ،حلقوں کےعوام اپنے ایم این اے اورایم پی ایز تک سے واقف نہیں۔
وزیراعظم کا اعلان کردہ 1100 ارب روپے کا پیکیج ہواؤں میں اڑ گیا ۔

الفاظ کے ہیر بھیر سے حساب بتایا جارہا ہے۔ایسی صورت حال میں جب اہلیان کراچی کے معیارزندگی کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے ،جماعت اسلامی کو یہاں کے لوگ اپنے لیے امید کرن سمجھ رہے ہیں ،کیونکہ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی بطورمیئراور سٹی ناظم خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔
جماعت اسلامی اس دھرنے کے نتیجے میں کراچی کےشہریوں کیلئے یہ مقدمہ جیت لیتی ہے تو سمجھ لیجیے اس شہرکی تعمیر کے نئے دور کا آغاز ہونےوالاہے ۔اگر سندھ حکومت  نےمظاہرین پر طاقت کا استعمال تو اس کا نقصان بھی سندھ حکومت کو ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :