وزیر اعظم کے لباس کے بیان پر تنقید کیوں؟

ہفتہ 3 جولائی 2021

Zain Siddiqui

زین صدیقی

وزیراعظم عمران خان کے بیان کو لے کرگزشتہ دنوں انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنا یاگیا اوران کے امریکی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں پردے سے متعلق سوال کے جواب پر ملکی میڈیا طرح طرح کے تبصرے کر نے میں مصروف رہا ۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے برسوں بعد میڈیا کے ہاتھ کو ئی مرچ مسالے والی کہانی لگ گئی ہو ۔وزیر اعظم نے تو امریکی میزبان کے ایک سوال پر اتنا کہا تھا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ عورتیں برقعہ پہنیں ۔

عورت مختصر کپڑے پہنے گی تو مردوں پر اس کا اثر پڑے گا ۔الایہ کہ وہ ربوٹ ہو ،جہاں تک جنسی تشدد ہے ،اس کا تعلق معاشرے سے ہے ،جہاں لوگ ایسی چیزیں نہیں دیکھتے تو اس سے اثر پڑے گا ،لیکن امریکا جیسے معاشرے میں کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
ہمارے معاشرے میںبے راہ روی تیزی سے پھیل رہی ہے ،یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آرہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ جملہ آج کا نہیں ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ برائیاں پہلے سے چلی آرہی ہیں اوریہ ہم سے پہلے معاشروں میں بھی تھیں ۔ہمارا معاشرہ مسلم معاشرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے رجحانات مغرب سے الگ ہیں ،وہاں جن چیزوں کی آزادی ہے ،ان چیزوں کی آزادی پاکستانی معاشروں میں ہے ،نہ ہی کسی صورت دی جاسکتی ،کیونکہ اسلام بہت سی ایسی چیزوں کی اجازت نہیں دیتا جس کی ممانعت ہے ۔
اب آئیے سنیے !ایک نجی چینل کی اینکر کو ہم نے یہ کہتے سنا کہ امریکا اور دیگر ممالک میں تو ریپ کے کیسز کم ہیں ۔

یہاں بہت زیادہ ہو تے ہیں ۔دنیا بھر میں ریپ کیسز کی فہرست میں پہلے دس ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل نہیں ہے ۔
نجی ٹی وی چینلز کے اینکرز وزیر اعظم کی اس بات پر سر دھنتے اور تاویلیں گھڑتے نظر آئے کہ عورت مختصر کپڑے پہنے گی تو مردوں پر اس کا اثر پڑے گااور اس بات کو لے کر اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق بات کی جاتی رہی ۔یعنی قرار دیا گیا کہ مختصر کپڑے پہننا درست ہے ۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔وزیر اعظم کا بیان غلط ہے ۔مختلف چینلز نے کچھ علمائے کرام کو بھی بیٹھایااور وزیر اعظم کے بیان پررائے لی جسے علمائے کرام نے درست قرار دیا ،جبکہ دین بیزار خواتین کواس بیان پر کھل کر بات کرنے کا بھرپورموقع فراہم کیا گیا ۔بعض علمائے علما کرام جنہیں ٹی وی پر وزیراعظم کے بیان پر رائے ظاہر کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، اس پر کھل کر بات نہ کرنے اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں پردے اور رعورت کے جسم کو ڈھانپنے کے احکام سے متعلق واضح انداز میں آگاہی فراہم نہ کرنے پر ہمیں افسوس ہوا ۔

اسلام میں تو عورت کو مرد اور مرد کو عورت کا روپ دھارنے،کپڑے پہننے اور بال بنانے سے منع فرمایا ہے ،عورتوں کو اپنی شلواریں ٹخنوں سے اونچی رکھنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے ۔جسم کو ڈھانپنے اور منہ پر اوڑھنیاں لینے کا حکم دیا گیا ہے ۔اسلام میں تو عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے ،جبکہ مردوں اور عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم وحیا اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔


حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے لباس سے متعلق بیان پر اپوزیشن کی بعض جماعتوں نے بھی خوب سیاست چمکائی ہے۔ہمیں ان لوگوں کی جانب سے اس طرح کے بیانات سن کر لگاشاید یہ ایلین ہیں ۔خیر اسلامی ملک کے وزیر وزیر اعظم کے بیان کو جس بری طرح سے لیا گیا ،وہ افسوسناک ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا
 کہ بحیثیت اسلامی ملک کے سربراہ کے ان کے بات کو اون کیا جاتا اور اہمیت دی جاتی ،مگر ٹی وی چینلز اور ان پر تبصرہ کرنے والے دین بیزار لوگوں نے مغرب کو یہ پیغام دیا کہ ان کے نظریات کو دوام بخشنے کیلئے ان کے پیروکار ابھی زندہ ہیں ۔


ہم نے عام لوگوں کی رائے حاصل کی تو اکثریت نے وزیر اعظم کے بیان کی تائید کی اور کہا یہ بات درست ہے ،جو وزیر اعظم نے کہی ہے ۔ہمارا معاشرہ شدید دورنگی کا شکار ہے ۔اس معاشرے میں ہرطرح کے لوگ ہیں ۔ہر طرح کی سوچ اور فکررکھنے والے لوگ ہیں ۔ہم اللہ کو مانتے ہیں مگر اس کے احکام کی کھلی خلاف ورزی بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔بنی پاک کے امتی ہیں ،مگر پوری طرح سنتوں پر عمل بھی نہیں کر رہے ۔

شراب اسلام میں حرام ہے ،مگریہ جانتے بوجتے ہوئے بعض لوگ اس فبیح لت میں مبتلا ہیں ۔ہر شخص دعوے دار ہے کہ وہ اچھا ،دیانتدار اور برائیوں سے پاک ہے ،مگر آزما نے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہی فرد اتنا بڑاا خائن اور جھوٹاہے ۔سادہ سی بات یہ ہے کہ کوئی شخص خامیوں سے خالی نہیں مگر ہر شخص اسے تسلیم نہیں کرتا۔
اب سنیے کچھ جاہل لوگ وزیر اعظم کے بیان کو مفتی عزیز کی زیادتی اوربچوں سے زیادتی کے واقعات سے جوڑ کر وزیر اعظم کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف رہے،جو یاتو ان کی جہالت کی عکاس ہے یا وہ اتنے معصوم ہیں کہ وہ اس زمین پر ہی نہیں رہتے ۔

کیا انہیں نہیں پتا کہ بچوں سے ریپ کے واقعات کیوں ہوتے ہیں ؟ ۔
سب سے پہلے ہم مفتی عزیز اوران جسے تمام واقعات کی شدیدمذمت کر تے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ریاست کو انہیں اپنے عبرتناک انجام تک پہنچانا چاہیے ،مگر ان واقعات کی آڑ میں مدرسوں کو بدنام نہیں بالکل نامناسب اور غلط عمل ہے،کیونکہ اس سے والدین کا مدرسوں پر اعتماد ختم ہوگا ۔دینی مدارس تو اسلام کے قلعے ہیں۔

یہ تو اللہ کی طرف لانے کا بڑا ذریعے ہیں ۔کوئی بھی فرد گھناو ¿نا فعل کرتا ہے تو اس میں اس کی اپنی ذات ذمہ دار ہے اور اسے اس کی کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے ۔شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور ایک مومن پر اس کے حملے یقینی ہیں اورمومن کا ان حملوں سے نہ بچنا ایسی ذلت میں ڈال سکتا ہے جو آج مفتی عزیز بھگت رہا ہے ۔
وزیر اعظم نے جو بیان دیا اس میں کوئی دو رائے نہی ہیں ،ان کا لباس سے متعلق بیان معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کا صرف ایک نکتہ ہے ،جبکہ باقی وجوہات ہیں ۔

فحش مواد دیکھنا ، جسمانی ساخت کو عیاں کرنا ،بے پردگی یقینا دیگر وجوہات میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کی کیوں تخلیق کی دنیا جانتی ہے ،پھر ان کے جوڑے بنائے یہ بھی دینا جانتی ۔پور ی دنیا میں برائیاں ہیں ۔بعض برائیوں کا تعلق انسان کی اپنی ذات کی حد تک ہوتا ہے ۔ بعض برائیاں دوسروں کو متاثرکر دینے والی ہوتی ہے ۔بہترین انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی برائیوں پر قابو پالے ۔


پاکستانی معاشرے میں حکومتی سطح پرکوئی تربیت نظام نہیں ہے ،کتب پڑھا ئی جاتی ہیں یا والدین بچوں کو مدرسوں میں پڑھا تے ہیں ۔کتابوں اور مدرسوں سے جو کچھ علم ملتا ہے ۔ان سے علم لینے والے خوش نصیب ہوتے ہیں ،مگر برائیوں سے بچنے کی تربیت کا بھی کوئی موثرنظام ہونا چاہیے ۔یہ نظام اسکولوں کی سطح پر ہو تو نئی نسل میں بہتری آسکتی ہے ،جس میں اخلاق کی تربیت کی جائے ،یہاں محض والدین گھریلو سطح پر اپنے طور پر بچوں کو اچھی اور بری باتوں سے گاہے بگاہے بتاتے رہتے ہیں جو ناکافی ہے ۔


اللہ پاک نے عورت اور مرد میں ایک دوسرے کیلئے کشش رکھی ہے ،ساتھ ہے کچھ چیزوں کا پابند بھی بنایا ہے اوریہ پابندی اس لیے ہے کہ معاشرے غلط سمت پر نہ نکل جائیں ۔وزیر اعظم کے بیان پر انگلیاں اٹھانے والوں سے دین کے بارے میں سنو تووہ تاولیں پیش کریں گے۔اول تو وہ دین کی بات نہیں کرتے ،مگر کریں گے بھی تو کہیں گے دین آسان ہے ۔یہ لباس سے متعلق بات کرنا انتہا پسند ی ہے مگر یہی لوگ اصل میں دین کے ضابطہ حیات سے عاری ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :