شیعہ کرونا یا سنی کرونا؟؟؟؟؟؟

جمعرات 2 اپریل 2020

Zakia Nayyar

ذکیہ نیر

اسلام دین فطرت ہے جسکے مفہوم ہی امن ،سلامتی،سکون اور برداشت ہیں مگر بدقسمتی سے ہم اس آذاد ریاست میں اسلام کی دولت سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی مشکل حالات میں الزام تراشی ,عدم برداشت اور بے سکونی جیسے عناصر کو پروان چڑھانے جیسے غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔۔کرونا جیسی خوفناک اور دردناک وبا سے ہر انسان خوفزدہ ہے دنیا کے کونے کونے میں لوگ اپنے طریقہء عبادت سے خدا کی مدد کے طالب ہیں کہ کوئی ایسا معجزہ ہو کہ مہلک مرض کا نام ونشان ہی ختم ہو جائے اموات کا سلسلہ ہے کہ تھم ہی نہیں رہا مگر ہمارے لوگ ان حالات میں بھی ایک دوسرے کو گالم گلوچ اور الزام تراشی سے سے باز نہیں آرہے سوشل میڈیا پر ایران سے آنے والے زائرین اور رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کے شرکاء گفتار کے غازیوں کے زیر عتاب ہیں کچھ تو دوسرے ممالک سے آنے والے اپنوں سے بھی نالاں ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔سال بھر ایران میں امام رضا علیہ السلام کے روزے کی زیارت کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر سے زائرین جاتے ہیں اس بار بھی گئے اب کیا خبر تھی کہ کرونا جیسی وبا ایران میں بھی تیزی سی پھیلنے لگے گی وہاں کی حکومت نے یہی بہتر جانا کہ زائرین کواپنے اپنے ملکوں کو روانہ  کیا جائے کیونکہ امریکی پابندیوں کیوجہ سے وہاں طبی سہولیات مقامی لوگوں کے لیے بھی ناکافی تھیں وہاں سے روانہ کیے گئے زائرین کو اگر اپنی سر زمین پر جگہ نہ دی جاتی تو وہ کہاں جاتے؟ہاں ایک غلطی ضرور ہوئی کہ حکومت نے غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا سرحد پر آنے والوں کے کیے قرنطینہ بنانے میں تاخیر ہوئی تب تک زائرین کو اپنے علاقوں کو روانہ کر دیا گیا تھا اب حکومتی غلطی میں زائرین کا کیا قصور کہ انہیں نہ صرف مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاچکا ہے بات زائرین سے نکلی تو مسلک اور فرقوں تک جا پہنچی ۔

۔۔دوسری طرف رائیونڈ میں تبلیغی بھائیوں کا دینی اجتماع ہواجو ہر سال ہی ہوتاہے پاکستان میں وبا کے آجانے کے بعد ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اسے یا تو موخر کر دینا چاہیے تھا یا وہاں مکمل طبی نگرانی کی جانی چاہیے تھی شرکا میں کرونا پھیلا تو پتہ چلا کہ وبا کی لوکل ٹرانسمشن سے اب پورا ملک متاثر ہوگا۔۔۔پھر ہونا کیا تھا اس بار تنقیدی زد میں سنی بھائی آئے ۔

۔۔اس مشکل گھڑی میں  جہاں جہاں پاکستانی تھے انہوں نے اپنے ملکوں کو واپس جانے میں ہی عافیت جانی جنہیں باقاعدہ اسکریننگ ،ٹیسٹ اور آئسولیشن میں رکھنے کے بعد گھروں کو بھیجا گیا مگر یہ بے چارے بھی گالیاں کھانے سے نہ بچ سکے۔۔کیوں واپس آئے وہیں رہتے اب یہ بیماری ملک میں پھیلائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ اسلام دینِ اعتدال کی حیثیت سے  زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف اور میانہ روی کا داعی ہے۔

شدت پسندی اور انتہا پسندی جہاں بھی اور جس بھی معاملے میں ہو گی اس کا انجام انتہائی خطرناک، مہلک اور عبرتناک ہو گا۔ اس لئے دینِ فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے  معاملات میں توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔۔۔مگر نہیں بھئی ہم ٹھہرے پاکستانی جہاں ہمیں کرونا سے بعد میں لڑنا ہے پہلے یہ تو فیصلہ ہوجائے کہ پاکستان میں پھیلنے والا کرونا شیعہ ہے یا سنی یا پھر دیار غیر میں رہنے والا کوئی پردیسی کرونا۔۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :