
تاریخ بلتستان
جمعہ 4 دسمبر 2020

زاکر بلتستانی
خطہ امن و ادب جیسے چھوٹا تبت بھی کہا جاتا ہے بلتستان کے کچھ اہم تاریخی پہلو کے بارے میں ہم آپ کو اس کالم میں بتائیں گے ۔محترم قارئین پاکستان کے شمالی علاقہ گلگت بلتستان میں پہلے دو اہم تہذیب پائے جاتے تھے۔ جن میں گلگت آریائی تہذیب کا مرکز رہا اور بلتستان منگولیائی تہذیب کا مرکز رہا۔منگولیائی تہذیب کو تبتی تہذیب بھی کہا جاتا ہے ۔تبتی تہذیب کے بعد یہاں اہستہ اہستہ مختلف جہگوں سے لوگوں کا آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔تبتی تہذیب کی بنیاد بون مد پر تھی۔ بون مد مذہب اس علاقے میں پیدا ہونے والا منفرد مزہب تھا۔ اور اسی علاقے میں ہی اس مذہب کو پروان چڑھا اور بعد میں اسی علاقے میں ہی بون مد ختم ہوا ۔ابھی بھی اس مذہب کے ماننے والے تبت اور لداخ میں پائے جاتے ہیں۔
اس کے بعد بارہوی صدی میں یہاں مقپون کی حکومت رہی ۔جن میں مقپون، اماچہ اور یبگو خاندان تھے۔ یہاں ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ بلتستان میں بولی جانے والی زبان بلتی تبتی زبان کی ایک شاخ سے تعلق رکھتی ہے ۔بلتی زبان بہت ہی قدیم زبان ہے ۔بلتی اصل اس علاقے کی جغرافیائی نام ہےجب کی زبان کا نام بلتی سکت ھے۔تبتی سلطنت کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان مختلف حصوں میں بٹ گیا۔ گلگت اور چلاس میں دردستان ،ہنزہ اور نگر میں بروشال جبکہ بلتستان میں شگر، خپلو اور سکردو کی ریاستیں وجود میں آئی۔سولھویں صدی عیسوی میں سکردو کے مقپون خاندان کے ایک چشم چراغ نے پورے گلگت بلتستان کوچترال تک ایک بار پھر متحد کیا۔ اس کا نام علی شیر خان انچن تھا ، مغل تاریخ دان اسے علی رائے تبتی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔انچن کی وفات پے اسکے بیٹے آدم خان اور عبدال خان میں جھگڑا ہوگیا اسکے بعد مقپون خاندان کا زوال ہوگیا اور گلگت بلتستان پھر چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئے۔ء1840 میں زور آور سنگھ نے پہلے بلتستان پرپھر گلگت پر حملہ کرلیا ا۔ لیکن 12 دسمبر 1841ء کو زور آور سنگھ قتل ہوگیا توسکردومیں احمد شاہ نے بلتسان میں بغاوت کرادی۔ مگر آزادی کی یہ جدوجہد کامیاب نہ ہوسکی اور بلتستان واپس 1842ء میں ڈوگرہ حکومت کے قبضے میں چلا گیا، گلگت ۔بلتستان میں ڈوگرہ حکومت 1948ء تک رہی۔ڈوگرہ حکومت کی 108 سالہ تاریخ میں گلگت بلتستان کے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
یاد رہے انگریزوں نے جو کشمیر ڈوگروں کو بیچا تھا اس میں گلگت و بلتستان شامل نہیں تھا مگر گلاب رائے کے صاحبزادے رنبیر سنگھ بادشاہ بنے تو ان کی افواج نے گلگت اور بلتستان کو فتح کرکے زبردستی کشمیر کا حصہ بنا لیا تھا۔ چودہ اگست کو جب پاکستان وجود میں آیا تو گلگت میں کرنل مرزا حسن خان کی سربراہی میں انقلاب آیا۔
گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف گلگت بلتستانِ کی آزادی کے لئے جنگ لڑی ۔ کرنل حسن خان کی سربراہی میں ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور یکم نومبر 1947 کو بونجی چھاونی پر حملہ کر کے ڈوگروں کو گلگت سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ جنگ آزادی 14 اگست 1947 کوشروع ہوئی اور یکم نومبر1947 تک گلگت اور استور کا علاقہ آزاد کرا لیا گیا۔ پھر چودہ اگست 1948کو بلتستان آزاد ہوا گلگت بلتستان کو ڈوگرہ حکمرانوں سے آزاد کروانے میں گلگت سکاّوٹس اور چترال سکاوٹس نے نمایاں کردار اداکیا تھا جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں کرگل تک کے علاقے کو آزاد کیا اورسکردو کے سنگلاخ پہاڑیوں پر اپنا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں گلگت بلتستان کے لوگوں کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہ حسین خطہ ڈوگرہ راج کے ناجاءیز قبصے سے آزاد ہوا۔ یکم نومبر 1947 سے لیکر سولہ نومبر 1947 گلگت بلتستان ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے میں قائم رہا یوں سالہ نومبر کو پاکستان کا پہلا پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم گلگت آیا یوں سالہ نومبر 1947سے یہ خطہ انتظامی طور پر پاکستان کے کنٹرول میں آیا ۔لیکن بدقسمتی سے چوہتر سال گزرنے کے باوجود آج بھی یہ خطہ بنیادی آئینی حقوق سے محروم ہیں ۔
(جاری ہے)
مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس مذہب کو مانتے ہیں۔
جب شمالی ہندوستان میں بُدوزم کی تبلغ شروع ہوئی تو تہاں شمالی ہندوستان سے مون قبائل کے لوگوں کا آنے کل سلسلہ شروع ہوا ۔اس کے بعد گلگت اور کشمیر کی طرف سے لوگوں کا اس خطے میں آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔اور کاشغر کے لوگ بھی یہاں آئے ۔اس کے بعد یہاں 14 صدی عسوی میں اسلام کی تبلیغ شروع ہوا اور بعد میں ایران کے مبلیغن کا آنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔بلتستان میں مختلف تہذیبوں کا اشتراک ہیں۔جس کی وجہ سے یہاں رنگا رنگی اور حسن ایمتظاج بھی اس تہذیب میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اگر ہم بلتستان کے ماضی کی حکمرانوں کی بات کریں تو یہاں کیسر بادشاہ کی حکومت رہی اور پھر اس کے بعد بلتستان میں گیلوس تلبو کی حکومت رہی اور اٹھویی عسوئی صدی میں یہاں تبت کی حکمرانی رہی پھر اٹھویی صدی کے بعد تبتی حکمران کو قتل کردیا گیا۔اس کے بعد اس خطےمیں ایک افراتفری کی سی ماحول پیدا ہوگیا لوگ مختلف قصبوں میں تقسم ہوگیا اور چھوٹی چھوٹی ریاست بن گیا۔اس کے بعد بارہوی صدی میں یہاں مقپون کی حکومت رہی ۔جن میں مقپون، اماچہ اور یبگو خاندان تھے۔ یہاں ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ بلتستان میں بولی جانے والی زبان بلتی تبتی زبان کی ایک شاخ سے تعلق رکھتی ہے ۔بلتی زبان بہت ہی قدیم زبان ہے ۔بلتی اصل اس علاقے کی جغرافیائی نام ہےجب کی زبان کا نام بلتی سکت ھے۔تبتی سلطنت کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان مختلف حصوں میں بٹ گیا۔ گلگت اور چلاس میں دردستان ،ہنزہ اور نگر میں بروشال جبکہ بلتستان میں شگر، خپلو اور سکردو کی ریاستیں وجود میں آئی۔سولھویں صدی عیسوی میں سکردو کے مقپون خاندان کے ایک چشم چراغ نے پورے گلگت بلتستان کوچترال تک ایک بار پھر متحد کیا۔ اس کا نام علی شیر خان انچن تھا ، مغل تاریخ دان اسے علی رائے تبتی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔انچن کی وفات پے اسکے بیٹے آدم خان اور عبدال خان میں جھگڑا ہوگیا اسکے بعد مقپون خاندان کا زوال ہوگیا اور گلگت بلتستان پھر چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئے۔ء1840 میں زور آور سنگھ نے پہلے بلتستان پرپھر گلگت پر حملہ کرلیا ا۔ لیکن 12 دسمبر 1841ء کو زور آور سنگھ قتل ہوگیا توسکردومیں احمد شاہ نے بلتسان میں بغاوت کرادی۔ مگر آزادی کی یہ جدوجہد کامیاب نہ ہوسکی اور بلتستان واپس 1842ء میں ڈوگرہ حکومت کے قبضے میں چلا گیا، گلگت ۔بلتستان میں ڈوگرہ حکومت 1948ء تک رہی۔ڈوگرہ حکومت کی 108 سالہ تاریخ میں گلگت بلتستان کے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
یاد رہے انگریزوں نے جو کشمیر ڈوگروں کو بیچا تھا اس میں گلگت و بلتستان شامل نہیں تھا مگر گلاب رائے کے صاحبزادے رنبیر سنگھ بادشاہ بنے تو ان کی افواج نے گلگت اور بلتستان کو فتح کرکے زبردستی کشمیر کا حصہ بنا لیا تھا۔ چودہ اگست کو جب پاکستان وجود میں آیا تو گلگت میں کرنل مرزا حسن خان کی سربراہی میں انقلاب آیا۔
گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف گلگت بلتستانِ کی آزادی کے لئے جنگ لڑی ۔ کرنل حسن خان کی سربراہی میں ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور یکم نومبر 1947 کو بونجی چھاونی پر حملہ کر کے ڈوگروں کو گلگت سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ جنگ آزادی 14 اگست 1947 کوشروع ہوئی اور یکم نومبر1947 تک گلگت اور استور کا علاقہ آزاد کرا لیا گیا۔ پھر چودہ اگست 1948کو بلتستان آزاد ہوا گلگت بلتستان کو ڈوگرہ حکمرانوں سے آزاد کروانے میں گلگت سکاّوٹس اور چترال سکاوٹس نے نمایاں کردار اداکیا تھا جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں کرگل تک کے علاقے کو آزاد کیا اورسکردو کے سنگلاخ پہاڑیوں پر اپنا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں گلگت بلتستان کے لوگوں کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہ حسین خطہ ڈوگرہ راج کے ناجاءیز قبصے سے آزاد ہوا۔ یکم نومبر 1947 سے لیکر سولہ نومبر 1947 گلگت بلتستان ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے میں قائم رہا یوں سالہ نومبر کو پاکستان کا پہلا پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم گلگت آیا یوں سالہ نومبر 1947سے یہ خطہ انتظامی طور پر پاکستان کے کنٹرول میں آیا ۔لیکن بدقسمتی سے چوہتر سال گزرنے کے باوجود آج بھی یہ خطہ بنیادی آئینی حقوق سے محروم ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.