
سکردو شہر اور کھنڈرات سڑکیں
جمعرات 10 دسمبر 2020

زاکر بلتستانی
سکردو گلگت بلتستان کا اہم شہر اور ضلع ہے۔ سکردو شہر قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ سکردو بلتستان کا دار الحکومت بھی ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل، کچورا جھیل،ماسور راک،دیوسائی میدان اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔سکردو بلتستان کا سب سے بڑا شہر اور دار الخلافہ ہے جس کی آبادی تقریباً اڑھائی لاکھ کے قریب ہے۔ سکردو شہر بلتستان کاتجارتی مرکزہونے کے ساتھ ساتھ صحت ، تعلیم ، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔ سکردو ہی بلتستان کو گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر شہروں کی جانب رفت و آمد کا ذریعہ بھی ہے جہاں بلتستان کا واحد کمرشل ائیرپورٹ اور بسوں کا اڈا بھی موجود ہے۔
بندہ حقیر کا تعلق بھی گلگت بلتستان کے اسی بدقسمت شہر سے ہے۔ جس کی ترقی ہمیشہ سرکاری ایوانوں اور کاغذوں میں ہوتی رہی۔اور زمینی حقائق سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ میری عمر اس وقت 24 سال پورا ہونے کو ہے مگر میری اس 24 سالہ زندگی میں سکردو کی سڑکوں کی مرمت یا انگریزی میں ریکارپٹنگ مشرف کے دور حکومت میں ایک بار ہوئی۔ اس کے بعد 12 نومبر 2009 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور گلگت بلتستان کا پہلا وزیراعلی بھی اسی شہر سے منتخب ہوا۔ مگر افسوس وزیراعلی صاحب نے اسکردو کی سڑکوں کا کچھ خیال ہی نہیں کیا ۔اگرچہ ان کو چاہئے تھا کہ اسکردو کی سڑکیں حدالامکان معیاری بنائی جائے ۔ مگر ان کواس بات کا خیال ہی نہیں آیا کہ اقتدار کے بعد انہیں سڑکوں میں ہی سفر کرنا ہے۔یوں اس دور حکومت میں بھی سکردو کے لوگوں نے انہیں کھنڈرات نما سڑکوں پر اپنی نظام زندگی گزارا۔
اس کے بعد 8 جون 2015 کو پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت گلگت بلتستان میں بنی۔ پاکستان مسلم لیگ کے پانچ سالہ دور حکومت میں پورے گلگت بلتستان میں کافی حد تک ترقیاتی کام ہوئے۔ اور اسی کے ساتھ سکردو کے سڑکوں کے مرمت کے لیے بھی پروجیکٹس رکھے گیے۔ مسلم لیگ نون کے حکومت نے سکردو کی سڑکوں کا انوکھا طرز سے مرمت کیا۔ دنیا میں اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب سڑکوں کی مرمت کی جاتی ہے تو جو پہلے سے لگی ہوئی تارکول کو اتار لیا جاتا ہے اور دوبارہ سے روڈ کی تعمیر نو کی جاتی ہے۔مگر ان کے دور میں ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
سڑکوں کی مرمت کچھ اس طرح ہوا جس طرح پنکچر ٹائر پر گرم کرکے پنکچر ٹاکی لگائی جاتی ہے۔ مطلب جو پہلے سے لگائے ہوئے تارکول کو اتارے بغیر اسی کے اوپر دوبارہ تارکول کو لگایا گیا اور بعد میں رولر کی مدد سے روڈ کو ہموار کیا گیا۔
جس کی وجہ سے روڈ چند ہی ماہ بعد اپنی پرانی حالت میں دوبارہ آگئی۔ اس طرح روڈ کی مرمت کرنے سے شہریوں کو بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کے دوکان روڈ کے تہہ سے نیچے چلا گیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا لاکھوں کا نقصان ہوا کیونکہ لوگوں نے بعد میں اپنی دکانوں کو سڑک کے تہہ تک برابر کرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے۔ اور یہ طرز مرمت سرکاری قوانین کے بھی برخلاف ہے ۔ مگر افسوس سرکاری سطح پر تعمیر و ترقی کا دور شروع ہونے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے رہے۔ مگر زمینی سطح پر یہ دعوے صرف زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئی۔ کیونکہ فنڈز کی منظوری کے باوجود بھی سڑکوں کی حالت ناگفتہ رہ گئی۔
اسکردو کے سڑکیں اس تیز رفتار دور میں بھی ویرانی کی کیفیت بیان کر رہی ہے۔ کیونکہ متعلقہ ٹھیکدار محکمہ بی اینڈ آر اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کی عدم توجہ سے سڑکوں میں ایسے گھڑے اور خندق بنے ہوئے ہیں ۔ جس سے لوگوں کو آمدرفت میں سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔سرکاری طور پر سڑکوں کی تجدید و مرمت کا کام بھی کیے جاتے رہے ہیں ۔لیکن جس طرح خستہ حال سڑکوں کی مرمت کی جاتی رہی وہ فضول مشقیں ثابت ہوئی ہیں۔ کیونکہ وہ اطمینان بخش کام نہیں تھے۔ متعلقہ ٹھیکیداروں اور متعلقہ افسران کی ملی بھگت کر کے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ذاتی مفادات کے خاطر ناقص مٹیریل کو استعمال میں لایا گیا۔ جس کے نتیجے میں چند دنوں بعد ہی ان سڑکوں سے تارکول ختم ہوا۔ اور پہلے سے زیادہ یہ سڑکیں ویران و خستہ حال ہوگئے۔ لیکن خزانہ لوٹ مار کرنے والے افسران اور ٹھیکیداروں کا کوئی پوچھنے والا نہیں جس کی وجہ سے وہ بے خوف من چاہے طریقے سے اپنا کام انجام دیئے۔
اور اب 15 نومبر کو گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت آئی اور عمران خان کا نعرہ بھی ہے کرپشن سے پاک پاکستان ۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عمران حکومت گلگت بلتستان کو کس طرح کرپشن سے پاک گلگت بلتستان بنائیں نگے اور کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔ اور اسکردو کے تعمیر و ترقی کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب نمائندے کتنا سنجیدہ ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے کیے گئے وعدے کتنے حد تک وفا کریں گے یہ وقت ہی بتائےگا۔
(جاری ہے)
مگر ان تمام تر خوبصورت مقامات کو دیکھنے کے بعد سکردو کی سڑکوں کی طرف ایک نظر دیکھے تو عجیب غربت سی محسوس ہوتی ہے ۔
سکردو کی سڑکیں خشک موسم میں کھنڈرات جبکہ برفباری یا بارش کے بعد جیل کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ سڑکوں پر اب گہرے گڑھے ہی نہیں بلکہ سڑکیں ہی گڑھے بن گئے ہیں۔ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں جہاں عالمی سطح پر زندگی کے ہر شعبے میں جدت لائی جارہی ہے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جا رہی ہے وہیں گلگت بلتستان کےاہم شہر سکردو میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔بندہ حقیر کا تعلق بھی گلگت بلتستان کے اسی بدقسمت شہر سے ہے۔ جس کی ترقی ہمیشہ سرکاری ایوانوں اور کاغذوں میں ہوتی رہی۔اور زمینی حقائق سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ میری عمر اس وقت 24 سال پورا ہونے کو ہے مگر میری اس 24 سالہ زندگی میں سکردو کی سڑکوں کی مرمت یا انگریزی میں ریکارپٹنگ مشرف کے دور حکومت میں ایک بار ہوئی۔ اس کے بعد 12 نومبر 2009 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور گلگت بلتستان کا پہلا وزیراعلی بھی اسی شہر سے منتخب ہوا۔ مگر افسوس وزیراعلی صاحب نے اسکردو کی سڑکوں کا کچھ خیال ہی نہیں کیا ۔اگرچہ ان کو چاہئے تھا کہ اسکردو کی سڑکیں حدالامکان معیاری بنائی جائے ۔ مگر ان کواس بات کا خیال ہی نہیں آیا کہ اقتدار کے بعد انہیں سڑکوں میں ہی سفر کرنا ہے۔یوں اس دور حکومت میں بھی سکردو کے لوگوں نے انہیں کھنڈرات نما سڑکوں پر اپنی نظام زندگی گزارا۔
اس کے بعد 8 جون 2015 کو پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت گلگت بلتستان میں بنی۔ پاکستان مسلم لیگ کے پانچ سالہ دور حکومت میں پورے گلگت بلتستان میں کافی حد تک ترقیاتی کام ہوئے۔ اور اسی کے ساتھ سکردو کے سڑکوں کے مرمت کے لیے بھی پروجیکٹس رکھے گیے۔ مسلم لیگ نون کے حکومت نے سکردو کی سڑکوں کا انوکھا طرز سے مرمت کیا۔ دنیا میں اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب سڑکوں کی مرمت کی جاتی ہے تو جو پہلے سے لگی ہوئی تارکول کو اتار لیا جاتا ہے اور دوبارہ سے روڈ کی تعمیر نو کی جاتی ہے۔مگر ان کے دور میں ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
سڑکوں کی مرمت کچھ اس طرح ہوا جس طرح پنکچر ٹائر پر گرم کرکے پنکچر ٹاکی لگائی جاتی ہے۔ مطلب جو پہلے سے لگائے ہوئے تارکول کو اتارے بغیر اسی کے اوپر دوبارہ تارکول کو لگایا گیا اور بعد میں رولر کی مدد سے روڈ کو ہموار کیا گیا۔
جس کی وجہ سے روڈ چند ہی ماہ بعد اپنی پرانی حالت میں دوبارہ آگئی۔ اس طرح روڈ کی مرمت کرنے سے شہریوں کو بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کے دوکان روڈ کے تہہ سے نیچے چلا گیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا لاکھوں کا نقصان ہوا کیونکہ لوگوں نے بعد میں اپنی دکانوں کو سڑک کے تہہ تک برابر کرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے۔ اور یہ طرز مرمت سرکاری قوانین کے بھی برخلاف ہے ۔ مگر افسوس سرکاری سطح پر تعمیر و ترقی کا دور شروع ہونے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے رہے۔ مگر زمینی سطح پر یہ دعوے صرف زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئی۔ کیونکہ فنڈز کی منظوری کے باوجود بھی سڑکوں کی حالت ناگفتہ رہ گئی۔
اسکردو کے سڑکیں اس تیز رفتار دور میں بھی ویرانی کی کیفیت بیان کر رہی ہے۔ کیونکہ متعلقہ ٹھیکدار محکمہ بی اینڈ آر اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کی عدم توجہ سے سڑکوں میں ایسے گھڑے اور خندق بنے ہوئے ہیں ۔ جس سے لوگوں کو آمدرفت میں سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔سرکاری طور پر سڑکوں کی تجدید و مرمت کا کام بھی کیے جاتے رہے ہیں ۔لیکن جس طرح خستہ حال سڑکوں کی مرمت کی جاتی رہی وہ فضول مشقیں ثابت ہوئی ہیں۔ کیونکہ وہ اطمینان بخش کام نہیں تھے۔ متعلقہ ٹھیکیداروں اور متعلقہ افسران کی ملی بھگت کر کے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ذاتی مفادات کے خاطر ناقص مٹیریل کو استعمال میں لایا گیا۔ جس کے نتیجے میں چند دنوں بعد ہی ان سڑکوں سے تارکول ختم ہوا۔ اور پہلے سے زیادہ یہ سڑکیں ویران و خستہ حال ہوگئے۔ لیکن خزانہ لوٹ مار کرنے والے افسران اور ٹھیکیداروں کا کوئی پوچھنے والا نہیں جس کی وجہ سے وہ بے خوف من چاہے طریقے سے اپنا کام انجام دیئے۔
اور اب 15 نومبر کو گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت آئی اور عمران خان کا نعرہ بھی ہے کرپشن سے پاک پاکستان ۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عمران حکومت گلگت بلتستان کو کس طرح کرپشن سے پاک گلگت بلتستان بنائیں نگے اور کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔ اور اسکردو کے تعمیر و ترقی کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب نمائندے کتنا سنجیدہ ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے کیے گئے وعدے کتنے حد تک وفا کریں گے یہ وقت ہی بتائےگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.