یوم آزادی گلگت بلتستان اور تاریخی حقائق

پیر 7 دسمبر 2020

Zakir Baltistani

زاکر بلتستانی

یکم نومبر 1947  یوم آزادی گلگت بلتستان سے لیکر اب تک کی گلگت بلتستان کے  تاریخی حقائق کچھ اس طرح ہیں۔یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے لوگوں نے کُلہاڑیوں اور ڈنڈوں کی زور پر کرنل حسن خان کی سربراہی میں اپنی مدد آپ ڈوگرہ راج سے  آزادی حاصل کرنے کے بعد چودہ دن تک اسلامی جمہوریہ گلگت کے نام سے دنیا کے نقشے میں قائم رہا۔ اس کے بعد 16 نومبر کو  پاکستان کا پہلا پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم خان گلگت آیا۔

یو سولہ نومبر  سے یہ خطہ انتظامی طور پر پاکستان کے کنٹرول میں آیا ۔
پولیٹیکل ایجنٹ گلگت آنے کے بعد کرنل حسن خان کو بھرپور یقین دہانی کرائی گئی کہ جو ہی پاکستان کے حالات بہتر ہوں گے گلگت بلتستان کو اس کے تمام سیاسی و بنیادی حقوق کو دی جائے گی ۔

(جاری ہے)

اسی طرح بعد میں گلگت بلتستان کو سیاسی و بنیادی حقوق نہیں دیا گیا تو کرنل حسن خان نے ایک بار پھر تحریک چلائی ۔

جس کی وجہ سے کرنل حسن خان کو  اڈیالہ جیل بھیجا گیا۔
اس کے بعد جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو ذوالفقار علی بھٹو  نے گلگت کا دورہ کیا اور انہوں نے گلگت بلتستان کے لوگوں کے مہمان نوازی خلوص اور غربت دیکھ کر اس نے گندم کی سبسڈی دیا۔
1973  میں بھٹو نے پاکستان کے لیے ایک بہترین آئین دیا لیکن اس آئین میں بھٹو نے گلگت بلتستان کو شامل نہیں کر سکا اور نہ ہی گلگت بلتستان کی شناخت کو واضح کیا گیا۔

یوں گلگت بلتستان کے لوگ  بہت مایوس ہوئے اور بے شمار مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔
1972 تک گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیر انتظام علاقہ کی حیثیت حاصل رہا ۔اور یہاں قبائلی علاقوں کی طرح FCR جیسا کالا قانون بھی نافذ کیا گیا ۔ریاست کشمیر کی دیگر خطوں کی طرح گلگت بلتستان کی بھی حتمی  آئینی حیثیت کا تعین مسئلہ کشمیر کے حل کے نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک نہیں ہو سکا ۔


محترم قارئین  2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پاکستان پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان کو ایک آرڈیننس کے ذریعے ایک ٹیمپریری سٹاپ دیا ۔ لیکن وزیر اعلی اور گورنر کے پاس کوئی خاص اختیارات نہیں تھے اس کے علاوہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کو کوئی آئین سازی کا بھی اختیار نہیں تھا۔ 2009 میں یہاں باضابطہ طور پر 24 نشستوں پر مشتمل قانون ساز اسبلی کے پہلے الیکشن ہوئے ۔

یوں پاکستان پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے صوبے میں بہترین کامیابی حاصل کی ۔اور اس طرح گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو پانچ سال کا مدت پورا ہونے کے بعد 2015میں دوبارہ الیکشن ہوئے ۔جس میں مسلم لیگ نون اکثریت کے ساتھ پورے گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے  ۔
 2018 میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے 2018 آرڈر کا نفاذ کیا ۔

اور اس آرڈر میں بھی گلگت بلتستان کے لئے کوئی خاطر خواہ اختیارات حاصل نہیں تھے ۔جس کی وجہ سے اس آرڈر کے خلاف گلگت بلتستان میں کئی دن تک احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔لیکن پھر بھی وہی آرڈر نافذ رہا وہی طریقے سے اس خطے کے حقوق پامال ہوتے رہے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ دشمن ملک بھارت کی سی پیک کے خلاف بیان بازیوں کی وجہ سے سی پیک کو محفوظ  کرنے کیلئے گزشتہ کئی ماہ سے مسلہ کشمیر کو متاثر کیے گلگت بلتستان کو آئینی عبوری سیٹ اپ دینے کیلئے تمام ریاستی ادارے ایک پیج پر آچکے ہیں اور بہت جلد گلگت بلتستان کو کچھ خاص سیٹ اپ دیا جارہا ہیں۔


پندرہ نومبر کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات بھی ہوئے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ گلگت بلتستان  قانون ساز اسمبلی بااختیار ہوگی یا یہ بھی اختیارات سے خالی ڈمی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :