کاش عابدین ڈاکٹر بن کر گھر لوٹتے

جمعہ 18 دسمبر 2020

Zakir Baltistani

زاکر بلتستانی

ہر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اولاد اچھا پڑھ لکھ جائیں اور اچھی نوکری کریں ۔اور اپنی زندگی آرام سے گزارے۔اسی طرح مرحوم عابدین کی ماں بھی پور جوش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بن کر گھر آئیں اور ملک و قوم کی خدمت کریں۔مرحوم نے اپنے کسی دوست کے پاس اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ جب اِس کے ایم کیٹ Mcatُٗٗٗ کا نتجہ آیا تو اِس سے زیادہ اُس کی ماں کو اِس سے زیادہ اِس کے ڈاکٹر بنے کے لیے فکر مند تھی۔

عابدین کا گھرانہ کل ساتھ افراد پر مشتمل ہیں۔ عابدین کا والد دیہاڑی دار مزدور ھے۔ اس والد صبح سویرے کام پر نکلتے اور شام کو گھر واپس آتے۔  اور اپنی ساری جمع پونجی عابدین کے ڈاکٹر بننے کے لئے خرچ کر رہے تھے ۔اس کے والد کا خواب تھا کی عابدین ڈاکٹر بن جائے مگر افسوس ان کا خواب ادھورا رہ گیا۔

(جاری ہے)


عابدین کو پڑھانے کے لئے اس کے بڑے بھائی اپنے والد کے ساتھ مزدوری کرتے رہے۔

اور عابدین کا چھوٹا بھائی بھی اٹھارہ سال کی عمر میں اپنی پڑھائی چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہوا اور وہ بھی عابدین کو ڈاکٹر بنانے کے لیے کوشاں تھے۔اس کے علاوہ دو چھوٹے بھائی گورنمنٹ سکول میں زیر تعلیم ہے اور ایک ہی بہن ہے جو ڈگری کالج میں زیر تعلیم ہے ۔
عابدین کے پورے گھرانے کو تعلیم سے دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کی تین بھائی اور ایک بہن کی تعلیم مکمل کروانے کے لیے ان کے دو بھائی اور باپ دن رات محنت کر کے ان کے تمام تعلیمی اخراجات پورا کرتے رہے ۔


عابدین نے میٹرک اسوہ سکول گمبہ سکردو سے مکمل کرلیا اور ایف ایس سی میزان کالج کراچی سے مکمل کرلیا تھا۔گلگت بلتستان کے غریب گرانے کے چشم و چراغ پاکستان کے شہر بہاولپور میں اپنے ماں باپ کی خواب کو تکمیل تک پہنچنے کے لیے نکلا تھا۔ ان کو کیا پتہ 12دسمبر کو دولت کے نشے میں ایک بدمعاش جس کو بااثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی ۔اپنی گاڑی پیچھے سے مارتے ہیں اور موقع پر ہی فرار ہو جاتے ہیں ۔

اس بدبخت انسان میں اتنی بھی انسانیت نہیں تھی کہ گاڑی مارنے کے بعد ان کو اسپتال لے کر جائیں بلکہ وہ کورٹ سے ضمانت حاصل کرتے ہیں اور آزاد ہو جاتے ہیں۔اب اس غریب گھرانے کو انصاف کون دے گا ؟ عابدین کی موت کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ اس ملک کے قانون نیا نظام حکومت ؟
یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان جناب خالد خورشید صاحب نے واقعے کی نوٹس تو لے لیں مگر ابھی تک کوئی عمل درآمد ہوتا نہیں دکھائی دے رہا ۔

خدارا اس متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے حکومت وقت کردار ادا کریں ۔یہ صرف اس خاندان کا چشم وچراغ نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان اور پاکستان کا اثاثہ تھا ۔یہ واقعہ آج عابدین کے ساتھ پیش آیا ہے کل گلگت بلتستان کے کسی اور سپوت کے ساتھ پیش آ سکتا ہے ۔گلگت بلتستان کے طالب علم کو تحفظ فراہم کریں جو ملک کے دیگر شہروں میں زیر تعلیم ہے ۔

ڈاکٹر عابدین کوئی امیر گھرانے کا نہیں بلکہ انتہائی غریب گھرانے کا بیٹا تھا۔ جو محنت کرنے میں اپنی مثال آپ تھا۔ غربت کی وجہ سے کیڈٹ کالج اور ملک کے دیگر اعلی معیاری تعلیمی اداروں میں تو نہیں جا پایا ۔ لیکن علاقہ کے نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر کے دوسروں سے مقابلہ کرتا رہا ۔۔میٹرک میں 92 فیصد نمبر لینے کے بعد غریب ماں باپ اور دیگر عزیز اور اہل علاقہ اپنے آنکھوں میں اچھے خواب سجانے لگے اور اپنے دن رات محنت کی کاوشوں سے میزان میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوے ۔

اور  ایف ایس سی میں 87 فیصد نمبر لینے میں کامیاب ہوے۔اس طرف پورے علاقے کی تواقع بڑھتے گے ۔ادھر عابدین نے میڈیکل کالج میں ٹیسٹ دیا ماں باپ کی دعاؤں کی بدولت بالآخر  عابدین کو قائد اعظم میڈیکل کالج میں داخلہ ملا۔ سال گزرے تھے۔ پھر اس درد ناک واقعہ کا پیش آنا کس کو معلوم تھا ۔اب اس بیچاری ماں کی کیا حالت ہوئی ہو گی جب جوان بیٹے کی لاش گھر پہنچے تو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :