نیشنلائزیشن پالیسی کے دو بڑے نقصانات

پیر 11 فروری 2019

Zazy Khan

زازے خان

1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت نے جب اداروں کو قومیایا تو دلیل موثر تھی کہ بائیس بڑے کاروباری خاندان معیشت پراجارہ دار ہیں، ارتکاز دولت وپیداوار سماجی اور معاشی تفاوت کو جنم دی رہی ہے۔آزادی کے بعد ابتدائی چند دہائیوں کا لیکن اگرمعاشی تجزیہ کیا جائے تو اس مقدمہ میں جان پڑتی دیکھائی نہیں دیتی۔ صورتحال اس کے برعکس دیکھائی دیتی ہے جب پاکستان کثیرالاقوامی معاہدات کا حصہ بن رہا تھا، معاشی نمو تیز تر تھی، اور وطن عزیز عالمی افق پر سرعت سے منزلیں طے کر رہا تھا۔

آزادی کے ابتدائی سال ملکی سیاست بھی خاصی اتارچڑھاوٴ کا شکار رہی۔ وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے قتل سے صدرایوب کی آمریت تک حکومتیں تو بنتی ٹوٹتی رہیں۔ اس حقیقت سے بھی مگر انکار نہیں کہ دور آمریت میں استحکام آیا اور طویل مدتی معاشی منصوبہ بندی کی بنیاد رکھی گئی۔

(جاری ہے)

مسائل کی نشاندہی ہوئی اور واضح اہداف مقرر کیے گئے۔ اصلاحات نے اندرونی وبیرونی سرمایہ کاری کو مہمیز دی۔

محدود وسائل اور ریاستی نوزائیدگی ایسی رکاوٹیں درپیش رہیں لیکن میگا پراجیکٹس بھی پایہ تکیمل کو پہنچے۔ تربیلا اورمنگلا ڈیمز کی تعمیر، سٹیل مل کا قیام اورپی آئی اے کی توسیع اس دور کی قابل ذکر معاشی کامیابیاں گردانی جاتی ہیں۔
70ء کے عام انتخابات ملکی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئے۔ اغیار کی سازشیں اور سیاسی جماعتوں کی چپقلش وطن عزیز کو دولخت کرگئی۔

مغربی یعنی موجودہ پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ برسر اقتدار ہونے پر وزیراعظم بھٹو نے پارٹی منشور کو عملی جامہ پہنایا اور صنعتی و سماجی خدمت عامہ کے تمام سرکردہ ادارے قومی تحویل میں لے لیے۔
ذہن نشین رہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں اشتراکیت اپنے عروج پہ تھی، عالمی نظام بائی پولر جبکہ سویت یونین اشتراکیت کا علمبردار تھا۔

سیاسی قیادتیں اور دانشور طبقہ اشتراکیت کو اپنے مسائل کا حل سمجھتا تھا۔بڑی طاقتیں ترقی پذیر اور نوزائیدہ ریاستوں کو اپنے اپنے بلاک میں شامل کرنے کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔ بھٹو بھی اشتراکی نظریات سے متاثر تھے۔
بھٹو کا اشتراکی تصورمعیشت پیداواری ذرائع پر ریاستی کنڑول اور مزدور کے حقوق کا تحفظ تھا۔ " اسلامی سوشلزم ہماری معیشت " ایسے انتخابی نعرے کے پس منظر میں یہی نظریہ کارفرما تھا۔

بھٹو کس قدر اپنے آدرشوں پرعمل پیرا ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے جو بحث کی متقاضی ہے۔
کس نظریہ نے نیشنلزم کو تقویت دی؟ موضوع بحث نہیں۔ نظریہ نافذ کرنے والوں کی نیت کیا تھی؟ کوئی سروکار نہیں۔ تاہم حوادث زمانہ نے جتلایا کہ قومیانے کی پالیسی پاکستان کے حق میں بہترثابت نہیں ہوئی۔نیشنلائزیشن پالیسی کے معیشت پر مجموعی طور پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اس باب میں بہت کچھ لکھا جا چکا۔

میری دانست میں دو بڑے نقصانات ہوئے۔
پہلا نقصان جس کی پیہم تکرارکی جاتی ہے وہ حکمرانوں کو ریاستی اداروں میں غیرضروری سیاسی مداخلت کا جواز ملنا ہے۔ درحقیقت سیاسی مداخلت ریاستی اداروں کی اعلیٰ کمان اور سول انتظامیہ کے لیے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی۔ اداروں کو بدانتظامی، نااہلی، اور بدعنوانی پر احتساب کے خلاف بظاہر ایک ڈھال مل گئی۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی آلودگی سے اداروں کی کارکردگی پر برے اثرات مرتب ہوئے مگر محض سیاسی مداخلت کو جواز بنا کر اداروں کی مجموعی تنزلی کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔
قومیانے کے نتیجے میں ادارے بتدریج خسارے کا شکار ہوتے گئے- عوامی دباوٴ پڑنے پرجب بھی ملکی ایوانوں میں اداروں کی کارکردگی بارے صدا گونجی، سیاسی قیادت ہی زیربار آئی۔

کسی نے بدعنوان انتظامیہ اور بیورکریسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جو اصل میں خرابی کی جڑ رہی۔ سیاسی قیادت مختصر عرصہ کے لیے اقتدار میں آتی ہے جبکہ بیوروکریسی اور انتظامی اہلکار طویل عرصہ ریاستی اداروں کے کاروباری معاملات سے منسلک رہتے ہیں تو منطقی لحاظ سے بری کارکردگی پر احتساب بھی انھی دو آخر الذکر طبقوں کا ہونا چاہیے تھا۔ شومئی قسمت سے سیاستدان ایک آسان ہدف ہونے کی بنا پر زیادہ مطعون ٹھہرے۔

دوسرا نقصان نادیدہ مگر زیادہ مہلک ثابت ہوا۔ ریاستی ادارے زیراثر آنے سے حکمرانوں کی نفسیات متاثر ہوئی۔ کارکردگی بڑھانے اور مسابقتی فضا پیدا کرنے کے لیے جو تگ وتاز درکار تھی، قومیانے کی پالیسی نے اسے بری طرح متاثرکیا۔ ملکی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا جبکہ پیداواری ذرائع اس نسبت سے نہ بڑھ سکے۔ حکمرانوں کی ہرنسل نے اداروں کی تعداد اور استعداد بڑھانے کی بجائے پہلے سے موجود اداروں پر اکتفا کیا۔

بیروزگاری جو معیشت کا جزولانفیک ہے، بڑھی تو بجائے مواقع و امکانات تلاش کرنے کے انھی اداروں میں کھپت کی جاتی رہی۔ حکمران ووٹرز کو مطمئن کرنے میں تو جزوی کامیاب رہے مگر اداروں پر ان کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ پڑتا گیا۔
حکومتی مداخلت کا مزید شاخسانہ یہ نکلا کہ میرٹ کو پس پشت ڈالا گیا۔ اقرباء پروری، سفارش اور رشوت کا کلچرعام ہوا۔

نااہل، بدیانت اور حکمرانوں کی جی حضوری پرمعمور افراد اداروں پر قابض ہوتے چلے گئے۔ مزدوروں کی انجمنیں جن کا مقصد حقوق کا تحفظ تھا، سیاسی آلودگیوں سے پارٹیوں کی آلہ کار بنتی چلی گئیں۔
 قومیانے سے جہاں اداروں کی مجموعی کارکردگی متاثر ہوئی وہیں ایک بڑا نقصان اچھے ٹیلنٹ سے محرومی بھی ہے۔ ادارے نقصان میں چلتے گئے تو اجرتیں ناکافی اور سہولتیں کم ہوتی گئی۔

قابل اور ہنرمند افراد نے نجی شعبہ کا رخ کرلیا جس سے ریاستی اداروں کی کارکردگی مزید گرتی چلی گئی۔
گزشتہ کئی سالوں سے جمہوری وغیرجمہوری حکومتیں اسی تگ ودو میں ہیں کہ ان کاروباری اداروں سے ریاستی اختیار کم کیا جائے- اس ضمن میں ہم ان سطور کے ذریعے یہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ بجائے اونے پونے بیچنے کے ان اداروں کے انتظامی معاملات بہتر کیے جائیں تاکہ خسارہ کم ہو، دوسرے مرحلے میں سرکاری اور پرائیوٹ پارٹنرشپ قائم کی جائے- اگر ناگزیر ہوجائے تو قومی اثاثوں کی مناسب قیمت لگا کر مکمل نجی شعبہ کی ملکیت میں دیئے جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :