صدارتی نظام کا شوشہ، حقیقت یا فسانہ!

بدھ 10 اپریل 2019

Zazy Khan

زازے خان

ملکی پارلیمانی نظام باوجوہ ڈلیور نہیں کر پا رہا جس کی کئی وجوہات ہیں- عوامل میں سیاستدانوں کی نااہلی، کاہلی، بدعنوانی، اور سب سے اہم انتظامی ومعاشی اصلاحات کا عدم نفاذ ہے- علاؤہ ازیں، سادہ اکثریت نہ ملنے کے سبب کمزور حکومت کی تشکیل، منشور کی تکیمل میں آڑے آتی ہے جو نظام کی بری ساکھ پہ منتہج ہوتا ہے-
موخرالذکر رکاوٹ کی عملی نظیر تحریک انصاف کی موجودہ حکومت ہے جو ناپسندیدہ اتحادیوں کی بیساکھیوں کی محتاج ہے- اتحادی جماعتوں کی بےجا فرمائشوں (بلیک میلنگ) سے بیزار وزیراعظم عمران خان نے کئی بار صدارتی نظام اور اس کی افادیت کا ذکر کیا-  اس زمرے میں وہ حق بجانب ہیں جب آٹھارویں ترمیم کے بعد مرکز کے پاس سواۓ کرنسی چھاپنے اور فوج رکھنے کے، سبھی انتظامی ومالی اختیارات صوبوں کو منتقل کیے جاچکے ہوں-
صوبائی خودمختاری کے باوجود اگر مرکزی حکومت ہی بری کارکردگی پر مورد الزام ٹھہرے تو پھر اس قدرجنجال پالنے کی ضرورت کیوں؟ کیوں نا صدراتی نظام رائج ہو- سیاسی جماعتیں اپنا اپنا ایجنڈا پیش کریں، عوام سے منظوری لیں اور اپنی اچھی یا بری کارکردگی کی کلی ذمہ داری بھی- دیگر فوائد یا نقصانات کے علاؤہ، اس بےیقینی اور افراتفری کے ماحول سے چھٹکارا توملے جو کیثرالاجماعتی  ووٹ کی تقیسم کے سبب نظام کو مفلوج کیے ہوۓ ہے-
پی ٹی آئی کی حکومت کو مرکز وپنجاب میں اسی المیہ کا سامنا ہے- جن دیرپا مسائل بشمول پنجاب کی انتظامی تقسیم، معاشی اصلاحات، اوربےلاگ احتساب پر پیش رفت ہونی چاہیے تھی، سست روی کا شکار ہیں- جوہری سبب  اتحادی جماعتوں کی نیم رضامندی یا تعاون میں پس وپیش سے کام لینا ہے- عوام بالخصوص تبدیلی کا خواہش مند طبقہ اس صورتحال پر نہ صرف پریشان ہے بلکہ بدل بھی- چونکہ حکومتی لگام تحریک انصاف کے ہاتھ ہے لہذا ساکھ بھی اسی کی خطرے میں ہے-عمران خان کو اس صورتحال کا بخوبی علم ہے جس کا اظہار انھوں نے متبادل صدارتی نظام کے نفاذ میں کیا-
سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس خواہش کی عملی تعبیر موجودہ سیاسی تناظر میں ممکن ہے؟ حکومت کی اپوزیشن کے ساتھ مخاصمت کو اگر پیش نظر رکھا جاۓ تو امکانات نہ ہونے کے برابرہیں- خواہش اور زمینی حقیقت میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ دستوری ترمیم ایسی وسیع خلیج حائل ہے جو اسی صورت عبور ہوگی جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی جسی بڑی جماعتیں اس تجویز کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گی- سردست جس کا کوئی امکان نہیں-
حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں اس غبارے میں ہوا بھری جا رہی ہے؟ اپوزیشن جماعتیں اور ان کے حمایتی قلم کار مسلسل ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ حکومت صدارتی نظام لانے میں بضد ہے- کیا یہ صدائیں بلاجواز ہیں یا کوئی منظم سوچ کارفرما ہے؟ جس کا مقصد یہ تاثردینا ہے کہ اس تجویز کے پس پردہ کچھ پوشیدہ طاقتیں ہیں جو نفاذ کی متمنی ہیں-
اپوزیشن کی آہ وفغان بلاسبب نہیں- سیاسی جماعتوں کی سرکردہ قیادت اور قریبی رفقاء اس وقت احتساب کی حالیہ مہم میں گرفتار ہیں یا پھرعدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں- حکومت اور عوام متفق ہیں کہ اس مہم کا کوئی حتمی نتیجہ نکلنا چاہیے- گزشتہ حکومتوں میں لوٹی گئی دولت واپس اور بدعنوان عناصر کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے- ایسے میں کوئی بھی ایسا شوشہ جس سے عوامی توجہ احتساب سے ہٹا کر غیرضروری مسائل میں الجھائی جا سکے، بطور کوشش دیکھی جانی چاہیے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :