علیمہ خان کیس اور اخلاقی تقاضا

منگل 22 جنوری 2019

Zazy Khan

زازے خان

محترمہ علیمہ خان کی شخصیت اگرچہ عوامی نہیں مگران کے نام کی بازگشت میڈیا میں اکثر سنائی دیتی رہی ہے-  وجہ وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ ہونا ہے- ملکی سیاست میں بھی ان کا کردار محض اس حد تک ہے کہ وہ تحریک انصاف کی ایک سرگرم کارکن کی حثیت سے جلسوں اور دھرنوں کی رونق بڑھاتی رہی ہیں-  
ان دنوں علیمہ خان کا نام بوجوہ میڈیا میں گونج رہا ہے، بدقسمتی سے یہ تذکرہ مثبت پیراطے میں نہیں ہورہا- دبئی لیکس میں پاکستانیوں کی اربوں ڈالر کی جائیدادوں بابت جب انکشاف ہوا، تو قومی حلقوں میں تشویش کی ایک لہر دوڈ گئی۔

قانون کا عدم نفاذ کہیں یا ریاستی لاپروائی، سرمایہ کاری کا نام دیں یا اقتداری اشرافیہ کی پیروی، چاہے کچھ بھی قرار دیں مگر یہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز کے سینکڑوں ہزاروں شہریوں نے دیار غیر اپنا سرمایہ منتقل کیا- علیمہ خان بھی اسی راہ گزر کی ایک مسافر نکلیں۔

(جاری ہے)

 دبئی لیکس بارے خبر جب میڈیا کی زینت بنی، تو اسے درخوراعتنا نہ سمجھا گیا۔

کچھ روز تو بریکنگ نیوز کا توا گرم رہا، سٹوڈیوز میں بحثیں بھی ہوئیں مگر پھر بقول چوہدری صاحب کہ مٹی پاؤ والی روایت قائم دائم رہی۔ دگرگوں معاشی حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت اماراتی حکام سے خبر کی تفصیلات طلب کرتی، مالیاتی اور تحقیقاتی اداروں پرمشتمل کمیشن تشکیل دیتی تاکہ کثیر سرمایہ منتقلی کی وجوہات آشکار ہوتیں۔
حالات کی ستم ظریفی کہیے یا قومی المیہ کہ برسر اقتدار جماعت کے کرتا دھرتاؤں بشمول وزیرخزانہ کی جائیداد بارے صدائیں بھی اٹھیں، یوں جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے-بجائے مسئلہ کی سنگینی کا ادراک کرنے، حکومت نے عجلت میں ایمنسٹی سکیم کا اعلان کردیا۔

یعنی کیوں ان بکھیڑوں میں پڑو کہ دولت قانونی یا غیرقانونی طریقہ سے بنائی گئی؟ ٹیکس ادا کیا یا نہیں؟ بیرون ملک کیسے اور کیوں منتقل ہوئی؟ بیک جنبش قلم یہ طے پایا کہ بیرون ملک بنائی گئی دولت کا محض دو فیصد حکومتی خزانہ میں جمع کروائیں اور مال شفاف ہونے کی رسید وصول کریں-
 ناموافق حالات میں حادثاتی مشیرخزانہ جناب مفتاح اسماعیل کی تجویز کردہ پالیسی پر حسب روایت حکومتی حماتیوں نے تعریفی ڈونگرے برسائےتو اپوزیشن نے تنقیدی تیر- خیر بہت سارے لوگ اس اسکیم سے مستفید ہوئے، علیمہ خان بھی انھیں میں سے ایک تھیں۔

قریب تھا کہ یہ معاملہ بھی دیگرقومی معاملات کی طرح قصہ پارینہ بن جاتا کیونکہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی، یہاں حکومت مطمئن، ادارے راضی، اور میڈیا خاموش تھا۔ بجز چند ناتواں آوازوں کے جو نقارخانے میں ماند سرگوشیاں تھیں، بالاخر عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے لیا۔
سپریم کورٹ میں کیس پیش ہوا تو ایف بی آر حکام نے علیمہ خان کے دبئی فلیٹ کی مالیت بارے تفصیلات سے آگاہ گیا۔

سوشل میڈیا پر مہربانوں نے جو اعداد وشمار گھڑ رکھے تھے، عدالت سے آنے والی خبروں نے تقریباً اتنا ہی مایوس کیا۔ جائیداد کی قیمت قریب سات کروڑ، جس میں سے نصف رقم بنک سے مستعار تھی۔ جائیداد چونکہ ان کے ٹیکس گوشواروں میں ڈکلئیرڈ نہیں تھی تو باوجود اسکیم میں اندراج ہونے، ٹیکس اور جرمانہ کی مد میں پچاس فیصد قیمت مزید ادا کی گئی۔
ابھی اس معاملہ پہ گرد نہ چھٹی تھی کہ ان کی امریکی ریاست نیو جرسی میں بھی جائیداد ہونے کا انکشاف ہوا۔

جس پر علیمہ خان کا موقف ہے کہ یہ جائیداد، دبئی فلیٹ بیچ کر خریدی گئی۔ مذکورہ معاملہ چونکہ عدالت میں زیربحث ہے تو اس پر رائے زنی مناسب نہ ہوگی-
علیمہ خان جہاں وزیراعظم عمران خان کی انتہائی قریبی عزیزہ ہیں وہیں وہ شوکت خانم ہسپتال کی بورڈ ممبر بھی ہیں۔ ہسپتال کے مالی انتظامات کے سلسلہ میں اکثر وبیشتر بیرون و اندرون ملک پاکستانی برادری سے فنڈ اکٹھا کرتی ہیں۔

ان کا یہ جذبہ یقیناً قابل قدر ہے مگر چونکہ ان کا نام فی الحال تنازعات میں گھرا ہےجس کا اندیشہ شوکت خانم ہسپتال ایسے فلاحی ادارے کو مالی نقصان کی صورت ہو سکتا ہے۔ لہذا بہتر ہوگا کہ جب تک قانونی کارروائی کا حتمی نتیجہ نہیں نکلتا وہ بورڈ سے علیحدگی اختیار کریں۔ قانونی معاملات سے جب وہ کلئیرہوں تو وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تاکہ ان کی نیک نامی برقرار رہے اور عوامی اعتماد کو ٹھیس بھی نہ پہنچے۔

ہمارے ہاں سیاست میں اخلاقی قدریں پامال چلی آ رہی ہیں۔ طبقہ بالا چاہیے سیاسی ہو یا غیرسیاسی کسی بھی قانونی اور اخلاقی حد سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس معاملہ میں حکومتی و غیر حکومتی سطح پر غیرجانبدار رہ کر ایک بہترین مثال قائم کردی جس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ جس کا آئندہ دنوں میں سیاست پر خوشگوار اثر پڑے گا- 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :