ضمنی بجٹ میں معاشی اقدامات کا جائزہ

منگل 19 فروری 2019

Zazy Khan

زازے خان

 بجٹ مرکزی ہو یا ضمنی، اس کے حتمی متاثرین عوام بالخصوص کم آمدنی والا طبقہ ہی ہوتا ہے کیوں کہ برقی گرتی ہے تو بیچارے "غریبوں " پر، نت نئے ٹیکس لاگوکرنے ہوں یا سبسڈی گھٹانی ہو، اداروں میں ڈاوٴن سائزنگ کی تجویز ہو یا سرکاری پروجیکٹس کی بندش، غریب طبقہ کے برخلاف اشرافیہ ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ میں کامیاب رہتی ہے۔
 اپوزیشن کے احتجاج اور وزیرخزانہ اسد عمرکی طعن وتشنیع کو نظرانداز کرتے ہوئے بجٹ تقریر کے اس حصہ کو موضوع بحث بناتے ہیں جو معاشی مسائل سے متعلق ہے۔

عددی اعتبار سے ناتواں پی ٹی آئی حکومت کو ابتداء میں کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ن لیگی حکومت معاشی مسائل کا جو ورثہ چھوڑ کرگئی ان میں ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ اور زرمبادلہ کے کم ہوتے زخائر قابل ذکر ہیں۔

(جاری ہے)

مصنوعی اعداد وشمار کے ماہر " ڈارنامکس" کے خالق اسحاق ڈار ملکی معیشت کی گھتیاں ایسی الجھا کر فرار ہوئے کہ ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔

 نئی حکومت کے برسراقتدار آنے سے احتساب کا غلغلہ اٹھا۔ اپوزیشن راہنماوٴں کی پکڑ دھکڑ اور نئے انتظامی سیٹ اپ پہ کاروباری طبقہ نے قدرے محتاط رویہ اختیار کیا۔سرمایہ کاری منجمد، اور کاروباری سرگرمیاں جزوی معطل رہیں- سٹاک مارکیٹ مندی کا شکار جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کم ترین سطح تک پہنچ گئی- ڈالرز کے کم ہوتے زخائر سے روپے پر شدید دباوٴ تھا- معاشی ماہرین، تجزیہ نگار، اور اپوزیشن سبھی یک زباں تھے کہ بلاتاخیر آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے ۔

پی ٹی آئی حکومت مگردیگر آپشنز پر مصر تھی، بآلاخردوست ممالک کے تعاون سے ادائیگیوں کا مسئلہ حل ہوا اور معیشت کو عارضی استحکام ملا- 
عرصہ دراز سے وینٹلیڑ پر پڑی پاکستانی معیشت کو تین بڑے چیلنجز درپیش ہیں- ان مسائل پر پیش رفت اور اقدامات پاکستانی معیشت کا رخ متعین کریں گے-ہماری معیشت کا بنیادی مسئلہ وصولیاں کم اخراجات زیادہ یعنی بجٹ خسارہ ہے- 19-2018 کے مالی سال میں 52 کھرب 93 ارب اور 50 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا گیا- وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 590 ارب قرار پایا جبکہ 2 ہزار ارب سے زائد خسارہ کا تخمینہ لگایا گیا- ترقی پذیر معیشت ہونے کے باعث پاکستان کو متفرق سماجی و معاشی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے- تعلیم، صحت، روزگار، فلاحی بہبود، بنیادی ضروریات بشمول بجلی، گیس، پانی، اور دیگر شعبہ جات میں بہتری اورتعمیر کے لیے رقوم درکار ہیں- وصولیوں کے ابترنظام کی وجہ سے آمدن اور اخراجات میں ایک وسیع خیلج ہے- چونکہ جمہوری نظام اپنی جڑپکڑنے کی تگ ودو میں ہے لہذا اصلاحات نافذ کرنے میں سیاسی مصلحتیں اور گروہی مفادات آڑے آ رہے ہیں- 
اس پہ مستزائد حکومتیں سہل پسندی کا شکار ہیں لہذا بجٹ خسارہ کو زائد نوٹ چھاپ کریا پھراندرونی وبیرونی ذرائع سے قرض لے کرپورا کیا جاتا ہے- قلیل مدت میں ان مدات سے معاشی سرگرمیاں رواں تو ہوتی ہیں مگر اس کی قیمت افراط زر اور قرضوں پر بھاری شرح سود کی صورت ادا ہوتی ہے جو مزید غربت اور معاشی تفاوت کو جنم دیتی ہے-
گزشتہ حکومتوں کی ٹیکس اصلاحات میں تساہل کی پالیسی نے قرضوں پراستوار معیشت کا رجحان پروان چڑھایا- نتیجہ یہ نکلا کہ غیرترقیاتی اخراجات میں قرضوں پر سود کی رقم دفاعی اخراجات سے بھی تجاوز کرگئی- امسال 55 کھرب روپے کے بجٹ میں دفاع کے لیے 11 کھرب جبکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے 16 کھرب مختص کیے گئے ہیں- پی ٹی آئی حکومت نے جہاں بدعنوانی کے ناسور پرقابو پانے کا عزم ظاہر کیا وہیں اس بات کا اعادہ کیا کہ وصولیوں کی موجودہ شرح کو دگنا کیا جائے گا- اور ایسے تمام طبقات جو باوجوہ ٹیکس نظام کا حصہ نہیں کو بھی شامل کیا جائے گا- واضح رہے کہ پاکستان میں قابل ٹیکس افراد کی تعداد کا ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس دیتا ہے-
منڈی کی آزاد معیشت کی کامیابی کا دارومدار بیرونی سرمایہ کاری پر منحصر ہے- کوئی بھی معیشت محض اپنے وسائل کے بل بوتے پر ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکتی- تحقیق گواہ ہے کہ غربت وافلاس کے شکار کئی ممالک نے معاشی اصلاحات نافذ کیں، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے در وا کیے اور بتدریج معاشی بدحالی سے نکلتے چلے گئے-
 سیاسی و معاشی گھمبیر حالات کے سبب پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اس سطح تک نہیں ہورہی جو معیشت کو درکار ہے- دہشت گردی، توانائی کی کمی، بنیادی انفراسڑکچر کی قلت، دفتری جھمیلے، بدعنوانی و بد انتظامی سمیت بہت سے عوامل ہیں جو سرمایہ کاری کی بڑھوتری میں رکاوٹ ہیں- ورلڈ بنک کی 2019ء کی کاروباری آسانیوں کی درجہ بندی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 136واں ہے، جو سرمایہ کاری کے لیے نامناسب ماحول ہونے کا مظہرہے-
موجودہ حکومت نے اس ضمن میں ضروری اقدامات کا اعلان کیا جس میں بچتوں کی آمدن پر ٹیکس کا خاتمہ، کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں ایک فیصد سالانہ بنیادوں پرکمی، اور کمپنیوں کے باہم میلاپ پر " انٹرکارپوریٹ ڈیوڈنڈز" کا خاتمہ بھی شامل ہیں- آزادی منڈی کی معیشت میں کمپنیاں وسائل سٹاک مارکیٹ میں اپنے شئیرز جاری کرنے سے حاصل کرتی ہیں- حصص کی منڈی میں سرمایہ کاری پر قدغنیں جتنی کم ہوں گی، منڈی کی گہرائی وگیرائی اتنی بڑھتی جائے گی- سرمایہ کو راغب کرنے کے لیے دو اہم اقدامات کا اعلان کیا گیا جس میں شئیرز کی خریداری پر0.2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ اور " کیپٹل لوسز کیری اور" یعنی نقصانات کو اگلے مالی سال میں ایڈجسٹ کرنے کی سہولت دی جائے گی-
پاکستانی معیشت کا تیسرا مگر اہم مسئلہ تجارتی خسارہ ہے- گزشتہ کچھ سالوں میں جہاں پاکستان کی برآمدات اس کی درآمدات کا 70 فیصد ہوتی تھیں، گھٹتے گھٹتے 40 فیصد تک پہنچ گئیں- پاکستان کے درآمدی بل کا پچاسی فیصد فقط توانائی کے ذرائع بشمول خام تیل، مائع گیس (ایل این جی)، اور کوئلہ وغیرہ پرمشتمل ہے- بطور حکمت عملی توانائی کے وہ متبادل ذرائع جو ماحولیاتی پروٹوکولز سے مطابقت رکھتے ہوں، کم لاگت ہوں، کی مقامی پیداوار پر زور دیا گیا- اس ضمن میں اِن ذرائع میں سرمایہ کاری کرنے پر ٹیکس چھوٹ کی نوید بھی گئی-
اس کے برعکس پاکستانی برآمدات زرعی اجناس اور ابتدائی صنعت وحرفت پرمشتمل ہیں جو بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی زائد رسد کی بنا پر کم قیمت قرار پاتی ہیں- چونکہ یہ برآمدات ماحولیاتی تبدیلوں کے زیراثر ہوتی ہیں لہذا موسمی تغیروتبدل سے ان کی پیداوار میں کمی بیشی بھی معمول کا حصہ ہے- حکومت نے تجارتی خسارہ کو کم کرنے کے لیے دو سمتی پالیسی اختیارکی- اشیاء تعیش کی حوصلہ شکنی کے لیے " پروٹکشنزم " اپنایا یعنی ٹیکس کی حد کو مزید بڑھایا- برآمدات کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا جن میں خام درآمدی مال پر ٹیکس ریٹ میں کمی، پیداواری یونٹوں کو دستیاب توانائی کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی تاکہ برآمدکنندگان مسابقتی دور میں مقابلہ کرسکے جس کے یقیناً خوش آئند اثرات مرتب ہوں گے-
علاوٴیں ازیں صنعتی پیداوار میں اضافہ کے لیے سپیشل اکنامک زون کا قیام، سرمایہ کاری کی نمو میں اضافہ کے لیے مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی، اور سیل ٹیکس پر پانچ سال کے لیے چھوٹ کا اعلان کیا گیا- گزشتہ حکومتی دور میں برآمد کنندگان کو سرمایہ دستیابی میں جو مشکلات درپیش تھیں، پرامزری نوٹس کے اجراء سے لیکوڈیٹی کی دستیابی کو یقینی بنانے کا عہد کیا گیا-
کھاد کی قیمتوں میں کمی کا عندیہ، زرعی قرضوں کی حد میں اضافہ، ڈیزل انجن پرعائد ڈیوٹی کو 17 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا جو یقیناً کسان کی بہتری میں معاون ثابت ہوں گے۔

امید کی جاتی ہے کہ حکومتی اقدامات سے معیشت کو خاطرخواہ سنبھالا ملے گا، غربت، بیروزگاری، اورمعاشی تفاوت میں کمی ہوگی-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :