آئی ایم ایف قرضہ کے غریب عوام پر اثرات

جمعہ 15 فروری 2019

Zazy Khan

زازے خان

حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ معاہدہ طے پاگیا، آخر کن شرائط پر؟دبئی ملاقات میں حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف میں 6 ارب ڈالر بطور قرض طے پایا جوتین سالہ مدت میں دیا جائے گا۔ قارئین کو شاید یاد ہو، حکومت کی آئی ایم ایف سے ابتدائی گفت وشنید کا آغاز گزشتہ اکتوبر میں ہوا جب عالمی بنک اور آئی ایم ایف کی مشترکہ سالانہ کانفرنس انڈونیشیا کے تفریحی مقام بالی میں منعقد ہوئی- وزیرخزانہ اسد عمر نے پاکستان کی مالی مشکلات کے پیش نظر قرض کی خواہش کا اظہار کیا- جانبین کی تصاویر سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ایک ایٹمی ملک کا محض 12 ارب ڈالر کے لیے دستِ سوال دراز ہے- مسکراہٹوں کے تبادلوں میں پاکستانی عوام کے نشمین پربجلیاں گرانے کا فیصلہ ہو رہا تھا- تبدیلی کے علمبردار بھی وہی راہ چلے، البتہ راہی بدلے- آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر گویا زباں حال سے یوں کہہ رہی تھی۔

(جاری ہے)

انہیں پتھروں پہ چل کر آسکو تو آوٴ،مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔
خیر بات کسی اور جانب نکل گئی- آئی ایم ایف کی طرف سے کڑی شرائط رکھی گئیں- ملاقات سے قبل چونکہ امریکہ اور طالبان مذاکرات کا ڈول ابھی ڈلا نہ تھا تو امریکی دباوٴ بھی اپنی جگہ قائم تھا- بہانہ چین کا قرضہ جبکہ نشانہ پاکستان تھا- شرح سود اور دیگر شرائط کا جائزہ لینے کے بعد حکومت پاکستان اس نتیجہ پرپہنچی کہ محض آئی ایم ایف پہ ہی تکیہ نہ کیا جائے، کچھ اور بھی در کھٹکھٹائے جائیں- یوں حکومتی مستعدی اور دوست ممالک کی بروقت امداد نے مملکت خداداد کا بھرم رکھ لیا- قرض کی مطلوبہ رقم بھی کم ہوگئی اورعوام بھی کسی حد تک شدید اثرات سے محفوظ ہوگئی-
لاعلمی کہیے یا حقائق سے چشم پوشی، ہمارے سیاستدان جذبات کی رو میں بلند بانگ دعوے کرکے خود ہی اپنی پشیمانی کا سامان پیدا کرتے ہیں- پی ٹی آئی قیادت بھی ماضی میں سابقہ حکومتوں کی آئی ایم ایف پالیسی کی مخالفت شدومد سے کرتی رہی- ملکی غربت اورمعاشی بدحالی میں بیرونی قرضوں کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی- ایک حد تک یہ موقف درست بھی ہے جس کی گواہی وفاقی بجٹ 19-2018 کے اعداد وشمار ہیں جن کے مطابق بیرونی قرضوں پر سود کی رقم دفاعی اخراجات سے تجاوز کرچکی ہے- یعنی وہ وسائل جو ملکی تعمیروترقی اور خوشحالی پرخرچ ہونا تھے، بدتر طرزحکمرانی کی بدولت وہ ساہوکاروں کی نذر ہوں گے-
چونکہ آئی ایم ایف کے پاس جی کا جانا ٹھہر چکا تھا تو حکومت درپردہ شرائط پرعمل پیرا رہی- سرمایہ دارانہ نظام کے ایک گماشتہ ہونے کے ناطے یہ ادارہ سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ مقدم قرار دیتا ہے- معاشی اصلاحات کے نام پرعوام کو دی جانے والی زرتلافی کا خاتمہ اور ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ اولین شرائط ہوتی ہیں-عوام کی کمر جو پہلے ہی مہنگائی سے دہری تھی، مزید زیربار آئی گی- حالانکہ آئی ایم ایف یہ شرط بھی عائد کرسکتا تھا کہ قرض اسی صورت ملے گا اگر عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس لاوٴ گے- لیکن یہ کیسے ممکن ہوتا جبکہ لٹی ہوئی دولت انھی ممالک میں ہے جن کی یہ نمائندہ تنظیم ہے-
حکومتی دعوں کے برعکس سب سے پہلے روپے کی قدر قریب 33 فیصد گھٹائی گئی- حکومت نے اس کا جواز سابقہ حکمرانوں کی مصنوعی استحکام کی پالیسی قرار دی- تجارتی ومالی خسارہ کو مدنظررکھیں تو معاشیات کے اصولوں کے مطابق روپے کی قدر کم کرنا منطقی تھا- یکبارگی گرانا مگر مہنگائی کے طوفان کا پیش خیمہ بنا- چونکہ پاکستانی درآمدات کا 80 فیصد محض پیڑولیم پراڈکٹس پرمشتمل ہے، روپے کی قدر گرنے سے تیل اخراجات بڑھے اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

 دوسرے مرحلے میں حکومت نے ریاستی زرتلافی کو کم کرنا شروع کیا- دروغ برگردن حکومت، فریضہ حج ادا کرنے والے اس ضمن میں بھاری سسبڈی سے مستفید ہوتے تھے- نئی پالیسی میں یہ اٹھا لی گئی جس سے فی کس اخراجات میں قریب پچاس فیصد اضافہ ہوگیا- پہلے تو بڑی لے دے ہوئی، لیکن محدود احتجاج کے بعد حکومتی موقف کو تسلیم کر لیا گیا- ریاستی ادارے جنھیں خسارہ کا سامنا تھا اور حکومتی بیل آوٹ کی مسلسل آکسجین لگی رہتی ہے، کا بوجھ بھی عوام پرلاد دیا گیا- حالیہ گیس بلوں میں ہوش ربا اضافہ لے لیں- گیس محکمہ کے نادہندگان کے ذمہ اڑھائی کھرب تو معاف ہوگئے، بقایا اڑھائی کھرب بلوں کی صورت عوام سے برآمد کیے گئے- حکومت ایک جانب خسارہ کو بجلی وگیس چوروں کے کھاتے ڈالتی ہے، مگر دوسری جانب سود زیاں میں پڑے بغیر سب سے کمزور فریق یعنی عوام سے وصولی بھی کرتی ہے- اس دورخی کو کیا نام دیا جائے مالی وتجارتی خسارہ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے کئی محازوں پرکام کیا- روپے کی قدر کم کی، سرمایہ کاروں کو لیکیوڈٹی تک رسائی دی، ود ہولڈنگ ٹیکس کی قدغن ختم کی- ان اقدامات سے برآمدات میں قابل زکر اضافہ ہوا- دوسری جانب درآمدات کی حوصلہ شکنی مزید ٹیکس لگا کر کی گئی- " پروٹیکشنزم " کی پالیسی اپنانے سے تجارتی خسارہ مزید کم ہوتا گیا- پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی جنوری رپورٹ کے مطابق مالی سال کے نصف میں تجارتی خسارہ 5 فیصد کم ہو کر8۔

16 ارب ڈالر تک رہ گیا ہے، جو ایک خوش آئند پش رفت ہے- حکومت جہاں کامیابیوں کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتی وہیں یہ نکتہ نظرانداز کر جاتی ہے کہ ان اقدامات کا عوام پرکیا اثر پڑے گا؟کرنسی قدر میں کمی سے افراط زر بڑھا تو مزدور، ملازمت پیشہ اور بچتوں پرمنحصر طبقہ کی قوت خرید مزید سکڑ گئے- صارف کی قوت خرید کا اشاریہ یعنی کنزیومر پرائس انڈیکس جو ماہ دسمبر میں 2۔

6 فیصد تھا، جنوری 2019 میں بڑھ کر2۔7 فیصد ہوگیا- اشیاء خوردنوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھی جس سے غریب کی رہی سہی کسر بھی نکلے گی-
پاکستان کا اصل مسئلہ اندرونی ذرائع سے ناکافی محصولات ہیں- ٹیکس نظام جو سیاسی مصلحتوں اور گروہی مفادات کے سبب عدم اصلاحات سے دوچار ہے، کا سب سے بڑا شکار غریب طبقہ ہے- کاروباری آمدنیوں اور منافعوں پرٹیکس کی بجائے بالواسطہ ٹیکس بڑھانا سہل ہے- نقصان مگر مڈل کلاس کا سکڑنا ہے جس سے کل معاشی طلب میں مزید کمی واقع ہوتی ہے- مالی خسارہ کا فوری متبادل قرض ہے- قرض کی مے کا ایک بار خمار چڑھ جائے تو بمشکل اترتا ہے-
پی ٹی آئی کی حکومت تبدیلی کے نعرہ پہ برسر اقتدار آئی- اس سے امید کی جاتی ہے کہ یہ معیشت میں خرابیوں کی جڑ پکڑے- ادارہ جاتی اصلاحات نافذ کرے- اشرافیہ کا احتساب کرے، بیرون ملک لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ممکن بنائیے- اورمعاشی وسماجی مساوات قائم کرے- 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :