سانحہ ساہیوال کی شفاف تحقیقات کیوں ضروری؟

پیر 28 جنوری 2019

Zazy Khan

زازے خان

ساہیوال میں قیمتی انسانی جانیں ریاستی اداروں کی بہیمانہ کارروائی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔چونکہ دہشت گردی کی بیخ کنی کی جا رہی ہے تو ’کولیٹرل ڈیمج ‘ یعنی گھن کے ساتھ گہیوں بھی پس رہا ہے۔ نظام انصاف مفلوج اور ادارے منہ زور، کون کیسے اور کیوں مارا جائے تفتیش تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو بتایا جائے اسی پراکتفا کیا جائے اور تھوڑے کہے کو پورا سمجھا جائے۔

ایک غیرتحریری بیانیہ تشکیل دیا جا چکا ہے۔
اسی تناظرمیں ساہیوال کے مقتولین کو بھی فسادی قرار دیا گیا۔ بعید نہ تھا کہ قوم ویسا ہی خیال کرتی جیسا بتلایا گیا مگر پھر واقعاتی شہادتیں خلاف آنا شروع ہوئیں۔ دلفگار منظرتھا کہ ایک معصوم بچی فیڈر ہاتھ میں تھامے، ماں باپ کے لہو کے چھینٹوں میں تربترفراک پہنے ساکت کھڑی تھی۔

(جاری ہے)

شاید خالق سے شکوہ کناں تھی۔

کوئی سنگدل ہی ہوگا یہ منظر دیکھ کر جس کی آنکھ نم نہ ہوئی ہو۔
قوم نے بیک زبان ہوکر اس وحشت و بربریت کی مذمت کی، حقائق سامنے لانے اورذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ اداروں نے پینترے اور حکومتی زعماء نے بیانات بدلے۔ بات مگر نہ بنی تو چار وناچار جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ تین دن کا وقت دیا گیا۔ مدت گزرنے کے بعد ٹیم کے سربراہ نے بظاہر ہاتھ کھڑے کر دے کہ اس’ لاینحل‘ مسئلہ کے لیے کم ازکم تیس دن مزید درکار ہیں۔

پیغام واضح ہے کہ معاملہ حسب روایت کٹھائی میں ڈالو۔ مٹی پاوٴ پالیسی ویسے بھی قومی شعارہے۔اس سانحہ کی شفاف تحقیقات کیوں ضروری ہیں؟جہاں مقتولین کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے وہیں ریاست پراعتماد کی بحالی بھی ضروری جس پراس واقعہ سے کاری ضرب پڑی۔ اگرچہ مقتول خلیل کے بچے اصل فریق مگر تشویشناک بات عوام کا ریاست پر بڑھتا عدم اعتماد ہے۔

وزراء کے ابتدائی بیانات اور حکومتی پس وپیش اس تاثر کو تقویت دے رہا ہے کہ اس مسئلہ پر عوام بالمقابل ریاست ہے۔ درآں حالانکہ ریاست وحکومت کی بقا عوام کے وجود کی مرہوں منت ہے۔ ریاستی وحکومتی نسق وترتیب کے پیش نظر بہرکیف عوامی تحفظ اور بہبود ہوتی ہے۔ہمارے سیاستدان اس بات کی دہائی دیتے نہیں تھکتے کہ حقیقی جمہوریت ہی اس ملک کی منزل اور عوامی مصائب کا حل ہے۔

جمہوری سماج میں انسانی بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ ہرشہری کی جان، مال اور آبرو کا تحفظ ریاست کی اولین ترجیح قرار پاتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی کے حقوق سلب ہوں گے اور نہ طبقاتی فرق روا رکھا جائے گا۔ معاشرے کے ہر فرد کی ان شخصی آزادیوں کا احترام کیا جائے گا جو دستور و قانون میں طے ہو چکیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے ملکی سنجیدہ اور باشعور طبقہ غیرمرئی قدغنوں پرفکرمند ہے۔

اوران خدشات کا برملا اظہار کرتا رہا ہے جو ان پابندیوں کے نتیجہ میں ریاست کو لاحق ہوسکتے ہیں۔ جمہوری معاشرہ میں عوام اگر گھٹن محسوس کرے یا نظام سے لاتعلقی اختیار کرلے تو ریاستی نظام خطرے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اعتماد کی بحالی کے لیے لازمی ہے کہ ریاست بداعتمادی کو جنم دینے والے اقدامات کا خاتمہ کرے۔
غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ اس لیے بھی جائز ہے کہ اس واقعہ میں خود ریاستی ادارے ملوث ہیں۔

ریاست جن ستونوں پر استوار ہے انھی میں ایک اہم ستون انتظامیہ ہے جس کی ذمہ داری مقنّنہ کے بنائے قوانین کا نفاذ یقینی بنانا ہے۔ ریاستی ستونوں کے معاملات میں عدم توازن یا قوانین سے بے توجہی معاشرے کو انارکی اور غیریقینیت کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ لہذا اس تاثر کی نفی ازحد ضروری کہ آئین وقانون سے بالاتر کوئی ادارہ یا فرد ہو سکتا ہے۔
ریاستی ادارے انہی قانونی ضابطوں کے تابع ہیں جو سماج کے عام فرد پرلاگو ہوتے ہیں۔

سانحہ کے شواہد اس بات کے گواہ ہیں کہ ریاستی اداروں میں عہدوں پرمتمکن افراد کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں- مجرم کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے مجموعی نقصان کو گوارا کیا گیا ہے۔یہ امر اس بات پر دلیل ہے کہ انسانی جانوں کی بیوقعتی کی گئی۔ نتائج کو پس پشت ڈالا گیا۔ واقعہ میں ملوث افراد کا احتساب بہرصورت ہونا چاہیے تاکہ اداروں میں احساس ذمہ داری بڑھے۔

پی ٹی آئی کی حکومت بالخصوص عمران خان ایک طویل جدوجہد کے بعد برسراقتدار آئے ہیں- عوام بلند توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ان کی پیشروٴ ن لیگی حکومت ماڈل ٹاوٴن سانحہ کا اخلاقی و قانونی بوجھ اٹھائی پھر رہی ہے۔ سانحہ ساہیوال اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور اگران واقعات کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو عوام کو تبدیلی کے نعرے سے بدظن ہوتے دیر نہ لگے گی۔ عمران خان اس واقعہ کو اپنی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس جانیں اور ذمہ دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں۔ سانحہ ساہیوال پر ہر شہری غمگین اور عدم تحفظ کا شکار دیکھائی دیتا ہے- اس واقعہ کی غیرجانبدارانہ تفتیش نہ صرف انصاف کو یقینی بنائی گی بلکہ ریاست پرعوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :