ائیر پورٹ سیکیورٹی اہلکاروں کی غنڈہ گردی

پیر 2 مارچ 2020

Zeeshan Noor Khilji

ذیشان نور خلجی

ابھی ابھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ایک نہتے مسافر پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ پہلے ایک سیکیورٹی اہلکار مضروب لڑکے کو دھکا دے کر نیچے گراتا ہے۔ اور وہاں موجود باقی اہلکار جب دیکھتے ہیں کہ آسان شکار ہے اور قابو بھی آ چکا ہے تو بھاگتے ہوئے آتے ہیں۔ پہلے تھپڑوں مکوؤں اور ٹھڈوں کی بارش کی جاتی ہے اس کے بعد اس کو باقاعدہ فرش پہ گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے جایا جاتا ہے۔

کیا وہ کوئی ایسا مجرم تھا کہ جس کو اگر مزاحمت کر کے روکا نہ جاتا تو عوام کے لئے نقصان دہ ہوتا؟ اگر وہ کوئی ایسا مجرم ہی تھا تو بھی اس کی مزاحمت کا یہ طریقہ تو قطعاً نہ بنتا تھا کہ یوں سر عام اس کی ٹھکائی کی جاتی۔ کیوں کہ مقابل جارحیت تو دور کی بات، اپنا دفاع بھی نہیں کر پا رہا تھا۔

(جاری ہے)

پھر منظر بدلتا ہے اور ایک اہلکار ویڈیو بنانے والے کے پاس آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ آپ ویڈیو نہ بنائیں یہ آپ کا کام نہیں۔

البتہ شہریوں کی یوں تذلیل اور سر عام مار کٹائی ہمارا کام ہے۔
اس ساری ویڈیو سے مجھے تو یہی لگا کہ یہ ضرور کوئی القاعدہ کا ایجنٹ ہو گا جس نے پھر سے نائن الیون کا واقعہ رونما کرنے کے لئے کوئی طیارہ اغواء کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ اور ہمارے بہادر جوانوں نے، جو کہ ائیر پورٹ پہ سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ مسافروں کے سامان کی چیکنگ میں بھی مصروف ہوتے ہیں اور بلیک میلنگ سے اچھی خاصی کمائی بھی کر رہے ہوتے ہیں اپنا قیمتی وقت نکال کے یہ فریضہ انجام دیا ہوگا۔

لیکن ویڈیو ابھی باقی تھی اور میری ساری خوش فہمیاں ہوا ہو گئیں، جب دکھایا گیا کہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ ایک مسافر تھا اور باقاعدہ اپنی فیملی کے ساتھ ائیر پورٹ پہ موجود تھا۔ اب اس کی ماں اور بہن دہائیاں دے رہی تھیں کہ میرے بچے کو مت مارو اللہ کا واسطہ ہے اسے چھوڑ دو۔ اور پھر ایک ہیروئن اسکرین پہ جلوہ افروز ہوتی ہے کیوں کہ ہیروز تو پہلے ہی آ چکے ہیں اب بس ہیروئن کی ہی کمی رہ گئی تھی۔

وہ بدتمیز خاتون اہلکار آتی ہے اور پہلے اس بزرگ خاتون کو تھپڑوں سے نوازتی ہے پھر ان کو اور ان کی بیٹی کو بالوں سے پکڑ کے لے جاتی ہے جیسے یہ انسان نہ ہوں کوئی ڈھور ڈنگر ہوں۔
واضح رہے یہ وہی جاہل عورت ہے جسے اپنی ڈیوٹی کے دوران سب سے زیادہ شکایت رہتی ہے کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور اسے ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جب کہ خود اس کا اپنا رویہ ایک عورت کے لئے درندہ نما ہو جاتا ہے۔
پہلے میرا یہی خیال تھا کہ یہ کوئی دہشت گرد ہے پھر اندازہ ہوا کہ نہیں یہ ایک عام مسافر ہے جس نے کوئی بے قاعدگی کی ہے اور زد میں آ گیا ہے۔ کیوں کہ وہاں موجود باقی مسافروں کو تو تنگ نہیں کیا گیا الٹا ائیر پورٹ انتظامیہ نے تو ان کی تفریح کا سامان مہیا کیا ہے۔ لیکن جب یہ دکھایا گیا کہ ان بے قصور خواتین پر بھی ایسے ہی تشدد کیا گیا تو اندازہ ہوا کہ وہ لڑکا بھی یقیناً بے قصور تھا بس وقت کی نازک گھڑیوں میں یہ ساری فیملی سیکیورٹی اہلکاروں کے عتاب کا نشانہ بن گئی۔

اس سے پہلے بھی ایک ویڈیو نظر سے گزری تھی جس میں ائیر پورٹ کے عملہ نے کسی کو مارا پیٹا تھا۔ لیکن یہ صرف ائیرپورٹ انتظامیہ کی بات نہیں بلکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ آپ کسی بھی محکمہ میں چلے جائیں پہلے تو وہاں کوئی آپ کی بات سننے کا ہی روادار نہ ہوگا۔ پھر احتجاج کی صورت میں آپ کو لاتوں اور گھونسوں سے تخت مشق بنایا جائے گا۔
قارئین! سوچتا ہوں کہ ان اہلکاروں کی ایسی پھرتیاں اس وقت کہاں چلی جاتی ہیں جب ان کے مقابل واقعی کوئی دہشت گرد یا مجرم آتا ہے۔

پولیس کو دوڑیں لگاتا تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ گو اور بھی بہت سے اداروں کو دیکھ رکھا ہے لیکن یہاں لکھنے کی اجازت نہیں۔ دہشت گرد تو دور کی بات، جب کوئی عام صاحب ثروت یا بااثر آدمی ان کی مٹی پلید کرتا ہے تو یہ سرکاری اہلکار بھیگی بلی بن جاتے ہیں اور انصاف کے لئے ہم عوام کے پاس رنڈی رونا لے آتے ہیں۔
دو سال پہلے کا واقعہ ہے مجھے حجاج اکرام کے استقبال کے لئے اسی علامہ اقبال ائیر پورٹ پر جانے کا اتفاق ہوا۔

وہاں انٹرنس پہ معمول کی چیکنگ کے دوران اہلکار نے ڈیش بورڈ کھولنے کا کہا۔ میں نے کھول کے دکھا دیا اس نے بھی سرسری سی نظر ڈال کے نگاہیں پھیر لیں۔ میں نے ونڈو گلاس چڑھا دیا اور آگے بڑھ گیا۔ کہ پیچھے سے اس نے آواز لگائی اور آگے موجود دوسرے اہلکاروں نے پھاٹک نیچے گرا دیا۔ قریب آ کر اس نے گاڑی سائیڈ پہ لگانے کا کہا۔ میں نے ونڈو نیچے کر کے وجہ پوچھی۔

اس نے کہا کہ آپ کی گاڑی میں اسلحہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنی حفاظت کے لئے رکھا ہے اور میرے پاس باقاعدہ اس کا اجازت نامہ ہے۔ وہ کہنے لگا ٹھیک ہے آپ یہ پسٹل لے کے ہمارے آفس میں جمع کروا دیں واپسی پہ لے جائیے گا۔ میں پسٹل لے کے باہر نکلا وہاں ڈیوٹی پہ موجود کوئی درجن ڈیڑھ اہلکاروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ کہ میں ہاتھوں میں پسٹل نہیں بلکہ توپ لئے ہوئے اترا ہوں اور ابھی کہ ابھی ان پہ چلانے لگا ہوں اور یہ منتظر ہیں کہ جیسے ہی میں اسے چلاؤں یہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔

قارئین! میں یہاں کسی واقعے کی مذمت کرنے نہیں آیا اور نہ ہی حکومت کو توجہ دلانے کا کوئی ارادہ رکھتا ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر اب بھی ارباب اختیار نے ایسے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا تو وہ دن دور نہیں جب ایسے سیکیورٹی ادارے خود کسی عوامی بلوئیے کا شکار ہوتے نظر آئیں گے۔ اور پھر اس کے بعد آنے والے دنوں انتظامیہ اور حکومت بھی ایسے ہی کسی پرتشدد ہجوم کی نذر ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :