میرا پیغام پاکستان‎

جمعہ 14 اگست 2020

Zeeshan Noor Khilji

ذیشان نور خلجی

اثاثہ ہے دلیروں کا
شہیدوں کی امانت ہے
تعاون ہی تعاون ہے
محبت ہی محبت ہے
جبھی تاریخ نے رکھا ہے
اس کا نام پاکستان
یہ 14 اگست 1996ء ہے۔ صبح کے آٹھ بجے ہیں۔ ایک چار سالہ بچہ، جس کا دل پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے سفید لباس میں ملبوس جلدی جلدی ناشتہ کر رہا ہے بلکہ ٹھونس رہا ہے کیوں کہ آج اس کے وطن کی آزادی کا دن ہے سو اسے خوب جشن منانا ہے۔

پس منظر میں ٹی وی چل رہا ہے جہاں نصرت فتح علی خاں کی آواز میں جمیل الدین عالی مرحوم کا لکھا گیا نغمہ گونج رہا ہے۔ یہ نغمہ سن کر بچے کے چھٹانک بھر دل میں پاؤ بھر خون امڈ آیا ہے۔ دراصل یہ ایک جذبہ ہے جو اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے اور ایک یہی نہیں بلکہ اس خطہ ارضی کا ہر ہر بچہ، بوڑھا، جوان اسی جذبے کے ساتھ جی رہا ہے۔

(جاری ہے)

عوام کے دلوں میں محبتوں کے سمندر موجزن ہیں۔

لوگ وطن کے لئے کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ اسی دوران یہ بچہ کڑکتی دھوپ میں اوپری چھت پر چڑھ جاتا ہے۔ رنگ برنگی جھنڈیاں لگاتے لگاتے اسے شام ہو جاتی ہے اور اس کا مشن بھی مکمل ہو جاتا ہے۔ اپنا چھت سجا کے اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دشمن کا مورچہ فتح کر لیا ہو۔ اب یہ اپنے دوستوں کو اکٹھا کر رہا ہے کیوں کہ اسے ایک عدد جلوس بھی برآمد کرنا ہے جس میں پاکستان  کے دشمنوں کو للکارا جائے گا۔

وطن کے محافظوں، غازیوں اور شہیدوں کے حق میں نعرے بازی کی جائے گی اور اس کے بانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے اس نے مال و متاع دو دن پہلے سے اکٹھا کر رکھا ہے جس میں پھٹی پرانی پتنگوں کے تنکے سر فرسہت ہیں جس پر آٹے کے لئی سے کاغذی جھنڈیاں لگائی جانی ہیں۔
آج 14 اگست 2020ء ہے۔ صبح کے آٹھ بجے ہیں۔ معمول کے کاموں سے فراغت کے بعد نوجوان نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا ہے۔

یوم پاکستان کے حوالے سے سرچ کرتے ہوئے اسے نوے کے عشرے کے چند ملی نغمے ملے ہیں جن میں سے ایک کو منتخب کر کے اس نے ہیڈ فون سیٹ کیا ہے۔ نصرت صاحب کی آواز کانوں میں گونجنے لگی ہے۔
اگر اللہ نے چاہا
زمانہ وہ بھی آئے گا
جہاں تک وقت جائے گا
اسے آگے ہی پائے گا
اور نوجوان کی آنکھیں نم ہونے لگی ہیں۔ وہ بچپن کی ان وادیوں میں کھو  گیا ہے جہاں خواب تھے، پاکستانیت جن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

لیکن درحقیقت اسے اس بات پر رونا آ رہا ہے کہ آج چوبیس سال بعد بھی اس نے یوم آزادی کی مناسبت سے سفید شلوار سوٹ تو زیب تن کر رکھا ہے لیکن اب کی بار اس کا دل بھی سفید ہو چکا ہے۔ کیوں کہ نئی صدی کے بیس اور پچھلی صدی کے چار سال ملا کر کل چوبیس سال بعد بجائے نیا زمانہ آتا اس وطن کے باسی تو کہیں بہت پرانے زمانے میں لوٹ چکے ہیں۔ شاید پاکستان سے بھی پہلے کے زمانے میں، جب یہاں غاصب گوروں کی کمپنی بہادر کا راج تھا۔

کیوں کہ اب وہ محبتیں مفقود ہو چکیں کبھی جو شعلۂ جوالا بن کر وطن عزیز کے ہر ہر فرد کے چہرے پر جھلکتی تھیں۔ اب تو چہار سو نفرت کا سانپ پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ اب یہاں کوئی سندھی ہے تو کوئی پختون ہے۔ کوئی پنجابی ہے تو کوئی سرائیکی۔ یہاں بلوچ اور کشمیری بھی نظر آتے ہیں لیکن اگر نہیں ہیں تو پاکستانی نہیں ہیں۔ کسی کا باپ شمال سے حملہ آور کی صورت میں آیا ہے تو کسی کا دادا ہندوستان سے مہاجر ہو کر آیا ہے۔

وہ اسی سراسیمگی کا شکار ہے کہ صدا گونجتی ہے۔
اندھیروں کو مٹائے گا
اجالا بن کر چھائے گا
یہ خطہ انقلابی ہے
نئی دنیا بنائے گا
اور اسے امید کی کرن نظر آنے لگتی ہے ہم ہی وہ نوجوان ہیں جنہوں نے نئی دنیا بنانی ہے۔ وہ غور کرنے لگتا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کچھ بھی نہیں بگڑا آج بھی ہم دلوں سے سب کدورتیں دھو کر سب نفرتیں بھلا کر اس پرچم کے سائے تلے ایک ہو جائیں تو وہ وقت آ سکتا ہے جس کا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا اور جمیل الدین عالی نے جسے اقبال کا الہام کہا تھا۔
نوجوانو ! آج عہد کا دن ہے آئیے عہد کریں کہ ہم نے اس وطن عزیز کے لئے پھر سے ایک ہونا ہے۔
پاکستان زندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :