کالا باغ ڈیم تکنیکی طور پر قابل عمل ہے

کالاباغ ڈیم کے متنازعہ ہونے کے باوجود اس منصوبے کی قمست کا فیصلہ سیاسی لیڈر شپ کے ہاتھ میں ہے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 7 جون 2018 13:59

کالا باغ ڈیم تکنیکی طور پر قابل عمل ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 07 جون 2018ء) : واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے چیف نے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر پانی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے نئے منصوبے قائم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ کالا باغ ڈیم بنانا تکنیکی طور پر قابل عمل ہے لیکن اس متنازعہ منصوبے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنا ملک کی سیاسی لیڈر شپ کے ہاتھ میں ہے۔

واپڈ کےچئیرپرسن مزمل حسین نے کہا کہ تکینکی طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم پر سندھ اور خیبرپختونخواہ کو جو بھی تحفظات ہیں ان پر پہلے ہی بات کی جا چکی ہے۔ اب اس متنازعہ منصوبے کی قسمت کا فیصلہ سیاسی لیڈر شپ کے ہاتھ میں ہے۔ پانی کے ذخائر اور وسائل پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے مزمل حسین نے ملک میں پانی کی قلت اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کی ایک تصویر دکھائی اور ساتھ ہی ملک میں پانی کے بحران کو دور کرنے کا طریقہ بھی بتایا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ملک آبی بحران کا شکار ہوا۔ اور اس آبی بحران کو ختم کرنے کا واحد حل پانی کے ذخائر میں اضافہ کرنے اور پانی کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنا ہے۔ پوری دنیا میں موجود پانی کے 35,409 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) ذخائز میں سے 1,577 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) جنوبی ایشیا میں موجود ہے جس میں سے پاکستان میں صرف 145 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) ذخائر موجود ہیں۔

کچھ 25 سے 35 فیصد پانی بارشوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور 65 سے 75 فیصد پانی شمالی علاقات جات میں موجود گلیشئیرز سے آتا ہے۔ واپڈا چیف کے مطابق ملک کی 60 فیصد آبادی براہ راست زراعت سے وابستہ ہے۔ دنیا بھر کے آبی بحران کے شکار 15 ممالک میں شامل ہونے کے باوجود پاکستان کو سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والا چوتھا ملک قرار دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان میں زراعت کے شعبے میں سب سے زیادہ پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک کا نوے فیصد پانی زراعت کے شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہئیے کہ زراعت کے ساتھ ساتھ ہم روزمرہ کی زندگی میں بھی کس طریقے سے پانی کی بچت کر سکتے ہیں۔ملک میں آبی ذخائر سے متعلق بات کی جائے تو بھارت کے 5 ہزار 102 ڈیمز کے مقابلے میں پاکستان میں کُل 155 ڈیمز ہیں۔ خیال رہے کہ آج سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران سابق حکو متوں کی جانب سے پانی کے سنگین مسئلہ کو نظر انداز کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے کالا باغ ڈیم سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کالا باغ ڈیم پر مکمل بحث کروائیں گے۔ اس معاملے کو جذبات سے نہیں بلکہ تدبر سے دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پانی سے ہی زندگی کی بقا ہے۔ کالا باغ ڈیم پر صوبوں کو لڑوانا نہیں چاہتے۔ ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دارالحکومت کو 58.7 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جارہا ہے۔

پانی کی طلب 120 ملین گیلن سے بھی زائد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں پانی سپلائی نہیں کیا جا رہا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں بھی کراچی کے بعد ٹینکرز بکنے لگ گئے ہیں۔ دارالحکومت میں 1500 روپے کا ٹینکر فروخت ہوتا ہے۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے سملی ڈیم میں پانی نہیں جا رہا ۔درخت لگانے کا کام بھی صرف کاغذوں میں ہی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پانی کا مسئلہ واٹر بم بنتا جا رہا ہے۔

پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ نہیں کیا گیا۔روز بیٹھ کر حکومت کا آڈٹ نہیں کر سکتے۔ مون سون بارشوں کا پانی ضائع ہو جاتا ہے، شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ 4ارب روپے لگا کر بھی ایک قطرہ پانی نہیں نکالا‘ آنے والے دنوں میں قوم کیلئے عذاب بن جائے گا، آصف زرداری اور نواز شریف بتائیں انہوں نے پانی کے لیے کیا کیا ‘کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کی مہم کراچی رجسٹری سے شروع کریں گے، کاش میں پنجابی نہ ہوتا سندھی یا بلوچ ہوتا، ہمیں کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے، معاملے کو جذبات نہیں تدبر سے دیکھیں گے‘دل کرتا ہے ڈیم بنانے اور ملک کا قرضہ اتارنے کیلئے چولہ پہن کر خود جائوں اور چندہ مانگوں۔

سماعت کے دوران بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ کالا باغ ڈیم کا نام سن کر سندھ اور کے پی کے میں احتجاج شروع ہو جاتا ہے، اتفاق رائے کے بغیر کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا، پیپلز پارٹی دور میں صوبوں کو آئینی ضمانت دینے کی بات کی گئی تو صوبوں نے کہا کہ آئین کی اپنی ضمانت کون دے گا۔چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ہم آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں، ڈیم بنانے سے آخر کس نے روکا ہے، جن ڈیموں پر اختلاف نہیں وہ کیوں نہیں بن رہے، عید کے بعد سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک عدالت کو بریفنگ دیں گے، کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کی مہم کراچی رجسٹری سے شروع کریں گے، کاش میں پنجابی نہ ہوتا سندھی یا بلوچ ہوتا۔

یاد رہے کہ 4 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم اور پانی سے متعلق دیگر کیسز کی سماعت سپریم کورٹ میں مقرر کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں پانی کی قلت ہے۔ڈیموں سے متعلق تمام مقدمات آئندہ ہفتے سنیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانی اور کالا باغ ڈیم سے متعلق تمام کیسز سپریم کورٹ کی رجسٹریوں میں سنیں گے، انہوں نے کہا کہ میں نے 32،32 سال پُرانے کیسز نکالے ہیں۔

پانی کی کمی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کشن گنگا ڈیم سے دریائے نیلم خشک ہو جائے گا، کئی بار کہہ چکا ہوں کہ پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے، ہم نے اپنے بچوں کو پانی نہ دیا تو کیا دیا؟ لہٰذا تمام متعلقہ افراد تیار ہو جائیں۔ کیونکہ ہم پانی کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں درخواست گزار نے استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کے لیے انتخابات سے قبل ڈیمز کی تعمیر کا وعدہ لازمی قرار دیا جائے، انتخابات میں ووٹ کے ساتھ کالا باغ ڈیم پر ریفرنڈم کی پرچی بھی شامل کی جائے جس پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کو کنفیوژ نہ کریں، پاکستان کی بقا پانی پرمنحصر ہے لہذا پانی کے مسئلے پر جو بھی ہو سکا کروں گا، 48 سال سے ملک میں کوئی ڈیم نہیں بنا،جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ کسی پارٹی کی ترجیحات میں پانی کے مسئلے کاحل نہیں۔

۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ذہن نشین کر لیں آج سے ہماری ترجیحات میں سب سے اہم پانی ہے، اسلام آباد،، پشاور اور کوئٹہ میں پانی سے متعلق تمام مقدمات سنیں گے۔ سپریم کورٹ کی اولین ترجیح پانی کے مسئلے کا حل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پانی ہمارے بچوں کا بنیادی حق ہے، کسی پارٹی کے منشور میں بھی پانی کا ذکر نہیں۔۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پانی کی قلت اور ڈیم کی تعمیر سے متعلق تمام مقدمات سنیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ واٹر بم کا معاملہ ہے، بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں، پچھلے دنوں بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنایا جس سے نیلم جہلم خشک ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے زیادہ کوئی ایشو اہم نہیں،