میر جام کمال کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، وزیراعلیٰ صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے اتحادی جماعتوں اور تمام اراکین کے تعاون سے عملی اقدامات اٹھائیں گے ،نومنتخب وزیراعلیٰ اپوزیشن اور حکومت بینچوں کی تفریق کئے بغیر پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے کام کریں گے، بلوچستان اسمبلی کے ارکان کا اجلاس میں اظہارخیال

ہفتہ 18 اگست 2018 23:25

میر جام کمال کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ..
کوئٹہ۔18 اگست(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اگست2018ء) بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے میر جام کمال کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے اتحادی جماعتوں اور تمام اراکین کے تعاون سے عملی اقدامات اٹھائیں گے ، بلوچستان میںامن عامہ ، صحت ، تعلیم ، روزگارکی کمی سمیت جتنے بھی مسائل ہیںا ن کے حل کے لئے صوبے کے عوام اپنے نمائندوں کی طرف دیکھتے ہیں ، امید ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ اپوزیشن اور حکومت بینچوں کی تفریق کئے بغیر پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے کام کریں گے ۔

ان خیالات کااظہار متحدہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار برائے وزارت اعلیٰ میر یونس عزیز زہری ،تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند ، اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی اورو دیگر نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قائد ایوان کے انتخاب کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

میریونس عزیز زہری نے جام کمال کو قائد ایوان منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کااظہار کیا کہ وہ صوبے کی اقدار ، قبائلی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام اراکین کو ساتھ لے کر چلیں گے انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں ، ایم ایم اے ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کے اراکین کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کااظہار کرتے ہوئے مجھے ووٹ دیا ۔

انہوں نے کہا کہ جام کمال صرف ان اراکین کے وزیراعلیٰ نہیں جنہوں نے انہیں ووٹ دیئے بلکہ وہ اپوزیشن سمیت پورے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں صوبے سے کرپشن کا خاتمہ کریں او رپچھلے ادوار میں جو مشیر ، کوآرڈینیٹر زکے نام پر جو بوجھ صوبے پر ڈالا گیا اس روایت کو دوبارہ نہ دہرایا جائے کیونکہ اگر ہم بلوچستان کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں تو ہمیں امید ہے کہ تمام تر مسائل ہم حل کرسکتے ہیں کیونکہ اس وقت صوبے میں تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے لوگوں کو صاف پانی تک میسر نہیں ہے ۔

پسند و ناپسند کی بنیاد پر کسی کو فنڈزجاری نہ کئے جائیں اگر اپوزیشن کے ساتھ ناانصافی ہوگی تو پھر ہم احتجاج کریں گے اور اگر ہمارے حلقے محفوظ نہیں رہے تو کوئٹہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ 2018ء کے انتخابات پر متحدہ مجلس عمل کے بھی تحفظات ہیں ان تحفظات کو دور کیاجائے اور پی بی41پر ہمارے امیدوار میر زابد ریکی جیت کر آئے مگر اب تک نتائج روکے گئے ہیں نوٹیفکیشن فوری طو رپر جاری کیا جائے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے کہا کہ آج ہم ایک نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں یہ سفر بلوچستان کے عوام اور دھرتی اور آنے والے وقت کے لئے انتہائی اہم ہے پچھلے 72سالوں میں جس طرح بلوچستان کو نظر انداز اور وسائل کولوٹا گیا اس پر ہم کسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھہراسکتے کیونکہ 1972ء سے لے کر آج تک لیڈر آف دی ہائوس اسی صوبے سے تعلق رکھتا آیا ہے یہاں باہر سے آنے والے کسی شخص نے حکومت نہیں کی انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہر دور پچھلے دور سے بد تر ہوتا گیا اس ایوان میں صوبے کے حقوق کا استحصال کیا گیا اور ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جس سے بلوچستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق مل سکیں انہوں نے نے کہا کہ بلوچستان میں ہمیشہ بندربانٹ کی گئی صوبے کے حقوق کی جنگ پارلیمنٹ سے ہی لڑی جاسکتی ہے بلوچستان میں پانچ بار شورش نے سراٹھایا یہاں بہت سے لوگ شہید ہوئے سیکورٹی فورسز نے قربانیاں دیں لیکن پھر بھی یہاں کے مسائل کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکے ہمارے جن بچوں نے صوبے کی نمائندگی کرنی تھی وہ کسی اور راہ پر چل پڑے اور کچھ دوست یہی سوچتے رہے کہ یہی مسئلے کا حل ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ شورش سے بلوچستان کے قابل لوگ ضائع ہوئے انہوں نے کہا کہ مرکز میں ہماری پارٹی اقتدار میں ہے مجھے یقین ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے صوبے کے فیصلے صوبے میں کرنے کا جو نعرہ لگایا ہے وہ اس پر قائم رہے گی ۔

ہمیں صوبے کے حقوق کے حصول کے لئے قانون سازی کرنی ہوگی اور مرکز سے سنجیدگی کے ساتھ بات کرنی ہوگی میں نومنتخب قائد ایوان سے امید رکھتا ہوں کہ ان کی حکومت سابقہ حکومتوں کی طرح غلطیاں نہیں دہرائے گی اور ہم بلوچستان عوامی پارٹی کے نومنتخب وزیراعلیٰ کی صوبے کی بہتری کے لئے کئے جانے والے ہر اقدام کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہیں انہوںنے کہا کہ امید ہے کہ نومنتخب اراکین اسمبلی صوبے کی روایات کو برقرار رکھیں گے اور ایسی گفتگو سے اجتناب کریں گے کہ جس سے کسی کی دل آزاری ہومیں جب تک اسمبلی میں ہوں ہم بلوچستان کے حقوق کسی کو غصب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے انہوں نے نومنتخب قائد ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میر جام کمال کے راستے میں کانٹے بچھے ہوئے ہیں ہم اس مشکل سفر میں آپ کے ساتھ ہیں ابھی سفر کی ابتداء ہے ہم سو دن تک حکومت کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیں گے جس کے بعد ہم صوبے کی بہتری کے لئے اپنی تجاویز دیں گے اگر پھر بھی ہماری آواز نہیں سنی گئی تو ہم ان مسائل کی نشاندہی کریں گے ہم گڈ گورننس ، بلوچستان کے بنیادی مسائل کے حل اور مسائل کو اجاگر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی جام کمال کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں ہماری خواہش ہے کہ آپ ایسے راستے کا تعین کریں تاکہ ہر علاقہ اور ہر جگہ مستفید ہو بلوچستان پسماندہ صوبہ ہے لیکن وسائل سے بھی ہمارا صوبہ مالا مال ہے اب تک جن مسائل پر توجہ نہیں دی گئی ہمیں امید ہے کہ جام کمال ان مسائل پر توجہ دیں گے ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے بلوچستان میں مسائل زیادہ ہیں پاکستان کو بلوچستان اور گوادر کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے مگر ہم اقتدار کے لالچ میں آکر صوبے کے وسائل بھول جاتے ہیں گوادر بلوچستان میں ہے اور اگر گوادرکی اہمیت نہ ہو تو سی پیک کا کوئی فائدہ نہیں رہے گاسی پیک کے نا م پر اربوں کھربوں روپے آئے مگر یہاں پر خرچ نہیں ہوئے سابق وزیراعظم نے سی پیک کے نام پر قوم کو دھوکہ دیا اور ژوب آکر ورلڈ بینک کے فنڈ سے ایک شاہراہ کا افتتاح کرکے اسے سی پیک کا نام دیا اور پنجاب میں جگہ جگہ پر موٹرویز ہیں ہم موٹر وے کا نام تک نہیں جانتے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سے ہمارا لاکھ اختلاف ہے مگر تحریک انصاف بلوچستان عوامی پارٹی کی مرکز میں اتحادی ہے بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی حکومت کے ساتھ اچھے روابط رکھ کر سی پیک کے مسئلے پر بات کرے اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی بھی مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے ان سے بھی یہی توقع اور تمنا ہے کہ وہ ان مسائل کو اجاگر کریں گے سی پیک پر توجہ دی جائے تو بلوچستان کی پچاس سالہ پسماندگی ختم ہوسکتی ہے انہوں نے کہا کہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اس سے مذاہب کی جنگ کاخطرہ ہے اگر ہم چالیس سال قبل ہی مغرب کو دوٹوک جواب دیتے تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کے لئے پشتونوں اور بلوچوں نے بہت قربانیاں دی ہیں بابڑہ سے لے کر آج تک ہم جمہوریت کے لئے قربانیاں دیتے آئے ہیں ہمارے اکابرین کی قربانیوں کی بدولت آج ملک میں جمہوریت ہے ہمیں جمہوریت سے مستفید ہونا چاہئے ہم نے پہلے کہا کہ نواب ثناء اللہ زہری جام کمال کی حمایت کریںگے اور اسی طرح جام کمال کے والد کی کرم نوازی دیکھ کر جمعیت العلماء اسلام اور جام کمال کے دادا کی کرم نوازی کی خاطرپشتونخوا میپ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے تحریک انصاف کی اتحادی ہونے کے ناطے بلوچستان نیشنل پارٹی بھی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حمل کلمتی نے کہا کہ بلوچستان مسائلستان بن چکا ہے صوبے کو پینے کے پانی ،تعلیم ، صحت ، گڈ گورننس جیسے مسائل کا سامنا ہے کوئٹہ شہر میں نلکوں میں پینے کا پانی نہیں آتا یہی حال چاغی اور گوادر کا بھی ہے اگر گوادر میں حکومت ایک ہفتہ پانی کے ٹینکروں کو پیسے نہ دے تو وہاں پانی ناپید ہوجاتا ہے گوادر میں پہلے صرف ایک سکول تھا اس کی بھی مرمت نہیں ہوتی تھی صوبے میں پانچ ہزار شیلٹرلیس سکول ہیں اب بھی کئی پرائمری سکولوں میں ایک ٹیچر اور ایک ہی کمرہ ہے تعلیم کی بہتری کے لئے کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے بلوچستان میں گڈ گورننس نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ امن وامان کا مسئلہ بھی سنگین ہے صوبے میں مارتا کوئی اور اس کی ذمہ داری کوئی اور قبول کرتا ہے ۔

لیویز ، پولیس کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ سی پیک گوادر کے بغیر نامکمل ہے اب تک سی پیک منصوبے میں60سی62ارب ڈالر دیئے جاچکے ہیں لیکن ان میں سے کتنے پیسے بلوچستان میں خرچ ہوئے یہ معلوم نہیں ۔ گوادر میں ایکسپریس وے اور ایئر پورٹ کے منصوبے تو بن رہے ہیں لیکن عوام کو ان منصوبوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ گوادر میں بجلی اور انفراسٹرکچر کا فقدان ہے انہوں نے کہا کہ گوادر کے عوام پندرہ پندرہ دن بغیر بجلی کے زندگی گزارنے پر مجبور ہے زراعت تباہ ہو کر رہ گئی ہے ہمیں گوادر کی ترقی کے نام پر دھوکہ دیا جارہا ہے اور ہماری زمینیں کوڑیوں کے دام ہڑپ کی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ اکنامک زون میں ایک بھی پلاٹ کسی بلوچستانی کو نہیں دیاگیا کراچی پورٹ سے کراچی شہر اور سندھ کو ریونیو دیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں بننے والے گوادر پورٹ کی آمدن کا ایک روپیہ بھی مقامی لوگوں پر خرچ نہیں ہورہا اس کے برعکس اربوں روپے وی وی آئی موومنٹ پر خرچ ہورہے ہیں ان پیسوں سے بلوچستان کو ترقی دی جاسکتی ہے انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر سے مقامی ماہی گیروں کو بھی نقصان ہوا ہے ان کے لئے جیٹی کا بندوبست کیا جائے اور نومنتخب وزیراعلیٰ میر جام کمال سندھ سے آنے والے غیر قانونی ٹرالرز پر پابندی عائد کریں ۔

اس موقع پر سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے رولنگ دی کہ گزشتہ اجلاس میں سیکورٹی کے انتظامات کے باعث کوئٹہ شہر میں ٹریفک کی روانی میں شدید مشکلات پیش آئی تھیں ہم عوام کو کسی صورت تکلیف نہیں دینا چاہتے یہ ایوان عوام کا ہے آئندہ ایسے کوئی اقدامات نہ کئے جائیں جس سے عوام کو تکلیف ہو ۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی ( عوامی ) کے میر اسد بلوچ نے کہا کہ ہر جماعت کا ایک صدر اور منشور ہوتا ہے ہماری پارٹی میں اختلاف سے متعلق جو بھی معاملہ ہے اس پر میں سپیکر چیمبر میں بات کروں گا انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوگیا ہے الیکٹرانک میڈیا ہمیشہ بلوچستان کو کوریج دینے میں ناکام رہا ہے اگر میڈیا آزاد ہے تو ہمارے خیالات کو پوری دنیا تک پہنچائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان بنیادی سہولیات سے محروم ہے ہم آج بھی دو ہزار سال پرانے دور کی زندگی گزار رہے ہیں صوبہ قدرتی وسائل سے تو مالا مال ہے لیکن آج تک اس دولت کو بروئے کار نہیں لایاگیا ۔

انہوں نے کہا کہ پنجگور گچک آواران روڈ پر کام کرنے سے تین اضلاع کے لوگوں کو معاشی طور پر فائدہ ہوگا اس سے ایران بارڈر کا سفر کم ہو کر صرف پانچ گھنٹے رہ جائے گا اگر حکومت عملی طو رپر ترقی چاہتی ہے توصوبے کے اہم شہروں کو توجہ دی جائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اربوں روپے کے فنڈز میں بدعنوانی ہوئی ہے ان کی تحقیقات سب سے پہلے میرے حلقے سے شروع کی جائیں ہم کرپشن سے پاک بلوچستان کو ہی ترقیافتہ بناسکتے ہیں ۔

سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے ایوان کو آگاہ کیا کہ پنجگور گچک آواران روڈ کی فزیبلٹی پر کام جاری ہے اس کے لئے ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں امید ہے کہ نئی آنے والی حکومت اس منصوبے پر تیز رفتاری سے کام کرے گی اس روڈ کی تکمیل سے بہت سے شہروں کے مسائل حل ہوں گے اور انہیں ذریعہ معاش تک رسائی حاصل ہوگی ۔متحدہ مجلس عمل کے سید فضل آغا نے وزیراعلیٰ جام کمال خان کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ صوبے کی اعلیٰ روایات ، اسلامی اور جمہوری روایات و اقدار کو برقرار رکھیں گے بلوچستان کے جسم پر اتنے پھوڑے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ کس پر ہاتھ رکھیں سمجھ نہیں آرہی کہ یہاں کس ایشو پر بات کریں بدقسمتی سے ماضی میں نہ تو منتخب عوامی نمائندوں نے خود کام کیا اور نہ ہی بیورو کریسی کو کام کرنے کے قابل بنایا،بلوچستان میں اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر کوئی مسئلہ حل ہوا نہ ہی عوام کو کوئی سہولت ملی اس کا ذمہ دار کون ہے۔

تعلیم ،صحت سمیت تمام شعبے بدحال ہیں اساتذہ کو سیاست میں شامل کرلیاگیا۔