Live Updates

سینیٹ اجلاس، اپوزیشن کا عام انتخابات2018 میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے ایک بار پھر پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ

وزیراعظم نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں دھاندلی بارے پارلیمانی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا مگر ابھی تک کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ،بہانے قوم کے مفاد میں نہیں ہیں،ملک کو دھاندلی کے ذریعے نہیں چلایا جاسکتا، ہم مارشل لاء سے بدتر حالت میں آگئے ہیں اس طرح ملک اور قومیں نہیں چلتیں، یہ الیکشن مشرف اور ضیاء الحق کے ریفرنڈم کو مات دے گیا ہے ، اگر میثاق جمہوریت پر من وعن عمل کیا جاتا تو شائد یہ دن نہ دیکھنے پڑتے،جمہوری سسٹم پر شب خون مارا گیا ہے ، صفائی سے لوگوں کو ہرایا گیا ،معاملے پر سینیٹ کی ہول کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے ،الیکشن کمیشن فوری مستعفی ہونا چاہئے، اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے اٹھارہویں ترمیم پر من وعن عمل کیا جائے ، اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے کیلئے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں ،نیا میثاق جمہوریت تخلیق کرنا ہوگا ،ایوان وفاق کی علامت ہے ، اگر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو وفاق پر سنگین گہرے بادل منڈلائیں گے ،اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے اپنایا جانیوالا طریقہ کار شفاف نہیں ،سینیٹ اجلاس میں سینیٹر شیری رحمن، سینیٹر رحمن ملک، سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر میر حاصل خان بزنجو ، سینیٹر جاوید عباسی ودیگر کا اظہار خیال

پیر 3 ستمبر 2018 23:05

سینیٹ اجلاس، اپوزیشن کا عام انتخابات2018 میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 ستمبر2018ء) سینیٹ میں اپوزیشن نے عام انتخابات2018 میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے ایک بار پھر پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انتخابات میں دھاندلی بارے پارلیمانی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا مگر ابھی تک کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا بہانے قوم کے مفاد میں نہیں ہیں،ملک کو دھاندلی کے ذریعے نہیں چلایا جاسکتا، ہم مارشل لاء سے بدتر حالت میں آگئے ہیں اس طرح ملک اور قومیں نہیں چلتیں، یہ الیکشن مشرف اور ضیاء الحق کے ریفرنڈم کو مات دے گیا ہے ، اگر میثاق جمہوریت پر من وعن عمل کیا جاتا تو شائد یہ دن نہ دیکھنے پڑتے،جمہوری سسٹم پر شب خون مارا گیا ہے ، صفائی سے لوگوں کو ہرایا گیا ،معاملے پر سینیٹ کی ہول کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے ،الیکشن کمیشن فوری مستعفی ہونا چاہئے، اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے اٹھارہویں ترمیم پر من وعن عمل کیا جائے ، اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے کیلئے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں ،نیا میثاق جمہوریت تخلیق کرنا ہوگا ،ایوان وفاق کی علامت ہے ، اگر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو وفاق پر سنگین گہرے بادل منڈلائیں گے ،اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے اپنایا جانیوالا طریقہ کار شفاف نہیں ۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق تحریک التواء پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ انتخابات کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے کہا تھا ، عالمی مبصرین بھی یہی بات کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 2013میں سب الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کا کہہ رہے تھے اور اس حوالے سے ایک دھرنا بھی ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ تمام جماعتوں نے مل کر بنایا تھا جس کے بعد ہمارا خیال تھا کہ آمدہ انتخابات پر شاید انگلیاں نہ اٹھیں اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو مالی اختیارات بھی دیئے گئے تھے لیکن پھر 25جولائی کو کیا ہوا ،4بجے کے بعد الیکشن بالکل فری تھا ۔

انہوں نے کہا کہ آئین الیکشن کمیشن کو صاف شفاف انتخابات کرانے کا کہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ٹی ایس کا سسٹم نادرا آفس میں رکھا گیا تھا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ یہ سسٹم ہم نے چیک کیا ہے اور یہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور صرف متعلقہ پریزائیڈنگ افسران نے ہی آر ٹی ایس استعمال کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 117ایسی نشستیں ہیں جہاں پریزائیڈنگ افسران کے 12سی15فیصد فارم 45پر دستخط تھے ، اگر دستخط ہوتے تو کوئی سوال ہی نہیں کرسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 49ایسے حلقے ہیں جن میں جیت کا مارجن بہت کم ہے اگر ووٹ مسترد نہ ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے سیاسی جماعتیں جو مطالبہ کریں گی اسے پورا کیا جائے گا ، سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے ایک پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا لیکن ابھی تک کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا۔

انہوں مطالبہ کیا کہ ایک پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ مینڈیٹ کیوں چرایا گیا ۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ میں اس جعلی الیکشن کی مذمت کرتا ہوں، کوئٹہ میں جمہوری حکومت توڑی گئی ، ہماری جماعت کہتی رہی کہ یہ اداروں کی مداخلت ہے لیکن کسی نے اسے تسلیم نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر میثاق جمہوریت پر من وعن عمل کیا جاتا تو شائد یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل ہم نے 10سٹیشنوں کی نشاندہی کی تھی کہ یہاں پر دھاندلی ہوگی ، ہرنائی میں 6بجے پولنگ ختم ہوئی لیکن2 بجے تک ہمارے خلاف کارروائی کی گئی اور ہماری جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کو دھاندلی کے ذریعے نہیں چلایا جاسکتا، ہم نے دھاندلی کی وجہ سے وزیراعظم کو کھویا اور وہ پھانسی پر چڑھا۔سینیٹر غوث نیازی نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ انتخابات میں کیا کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی پولنگ سٹیشنز سے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا ، اس کا فوری تدارک ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پارلیمانی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک نہیں بنا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم اپنے 100 روزہ ایجنڈے میں پارلیمانی کمیشن کو بھی جگہ دیں ۔ میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید کوئی ایسا الیکشن ہوگا کہ اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ دھاندلی ایک سال قبل شروع ہوگئی تھی اس کیلئے میڈیا اور لوگوں کو استعمال کیا گیا، سیاسی جماعتوں کو بدنام کیا گیا، یہ ایک طریقہ کار تھا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود دھاندلی کا پہلا حصہ بنا ، بلوچستان میں نگران حکومت بنانے کی چوائس الیکشن کمیشن کو دی گئی ، چار ناموں میں سب سے معتبرنام جہانگیر قاضی کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب تو یہ مسئلہ آگیا ہے کہ بیانیہ کس کا ہوگا ۔

انہوں نے کہاکہ اگر پیپلزپارٹی سیاست کرنا چاہتی ہے تو اس کو خلائی مخلوق کے بیانئے پر جانا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ہم مارشل لاء سے بدتر حالت میں آگئے ہیں اس طرح ملک اور قومیں نہیں چلتیں ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے تین دن تک ہمارے پولنگ ایجنٹس تک نہیں دیئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ٹی ایس کس نے بند کیا تھا ، کس کی جرات ہے کہ نادرا کو آر ٹی ایس بند کرنے کا کہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دفعہ جتنے پیسے بٹورے گئے ہمیں اس کو چیک کرنا ہوگا ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے ۔سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ جمہوریت کا مطلب قانون کی حکمرانی ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دن صرف چیف الیکشن کمشنر نہیں سو رہے تھے نگران وزراء بھی خراٹے لے رہے تھے ، یہ جبری شادی تھی جہاں مولوی صاحب سے بزور شمشیر نکاح پڑھایا گیا اور وہ بھی گواہوں کے بغیر ۔

انہوں نے کہا کہ ساری جماعتوں نے انتخابی کو مسترد کیا ہماری جماعت کو جمہوریت سے وابستگی کی سزا دی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی ریلیوں پر حملہ کیا گیا اور بدترین قسم کی دھاندلی کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں آکر دوراندیشی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیا میثاق جمہوریت تخلیق کرنا ہوگا ، اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کرنے کیلئے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں ، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے اٹھارہویں ترمیم پر من وعن عمل کیا جائے ۔

سینیٹراسد جونیجو نے کہا کہ اگر ہیکنگ ہوئی ہے کہ اس کا پتہ چلایا جائے ، لاگ آڈٹ کرایا جائے کہ ٹمپرنگ ہوئی ہے یا نہیں ۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پارلیمانی کمیشن کا قیام سب کی آواز ہے ،انگوٹھوں کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ 4500پریزائیڈنگ افسران کے پاس فون ہی نہیں تھا، جو سسٹم بند کرایا گیا وہ کس نے کرایا یہ قوم جاننا چاہتی ہے ۔

سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ الیکشن صاف شفاف ہوں ، جمہوری سسٹم پر شب خون مارا گیا ہے ، صفائی سے لوگوں کو ہرایا گیا ہے ، اس معاملے پر سینیٹ کی ہول کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے ، اس کا ٹیکنیکل سیاسی اور آئینی آڈٹ بھی ہونا چاہیے ۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے سوائے ایک انتخاب کے جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان پر انگلیاں اٹھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نئے انتخابات پر بھی یہ سوال اٹھے گا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ عوام کی حکمرانی ہے اور پارلیمان سپریم ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر 10سال بعد جمہوری عمل کوختم کیا جاتا رہا ۔انہوں نے کہا کہ آئین کو معطل کردیا جاتا تھا اس کے بعد جب دیکھا کہ یہ ممکن نہیں تو پھر آئین میں ترمیم لائی گئی ، 58ٹو بی کا معرض وجود سامنے آیا ۔

انہوں نے کہا کہ میں پارلیمان کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے 58ٹو بی کو ختم کیا، پارلیمان نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے اقدامات کو تحفظ نہیں دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پھر سوچا گیا کہ نیا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے کہ کٹھ پتلیاں موجود ہوں اور ڈوریں کہیں اور سے کھینچی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوان وفاق کی علامت ہے ، اگر جمہوریت نہ رہی اور جمہوری عمل کو دوبارہ ڈی ریل کیا گیا ،آئین کیساتھ کھیل کھیلا گیا تو وفاق پر سنگین گہرے بادل منڈلائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اشرافیہ کو باقی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر طے کرنا ہے کہ گورننس کے طریقہ کار کیا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ سویلین بالادستی ہوگی ، ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے گا، اگر ملک کو مستحکم کرنا ہے تو لازم ہے کہ ہم آئین کی پاسداری کریں ۔انہوں نے کہا کہ اب ایک نیا ڈرامہ شروع کیا گیا ہے ابھی سے اگلے الیکشن کی دھاندلی کا سامان شروع کیا جا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا مخالف نہیں ہوں لیکن جو طریقہ کار اپنایا جارہا ہے وہ شفاف نہیں ہے ، اگر آر ٹی ایس فیل ہوگیا تو کیا گارنٹی ہے ای ووٹنگ ہیک نہیں ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ان پاکستانیوں کا کیا ہوگا جو مڈل ایسٹ میں ہیں اور ان کا اکائونٹ نہیں ہے ۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ الائنس اورسیاسی اتحاد بنائے گئے ، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ختم کیا گیا ، میڈیا پر غیر اعلامیہ سنسر شپ نافذ کی گئی ، حلقہ بندیاں غیر قانونی طور پر بنائی گئیں ، نیب کو استعمال کیا گیا ، آر ٹی ایس خراب کیا گیا ، بعض پولنگ سٹیشنز پر کیمرے توڑ دیئے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ پشتون لیڈر شپ کو پارلیمنٹ سے دور رکھا گیا ہے ، یہ الیکشن مشرف اور ضیاء الحق کے ریفرنڈم کو مات دے گیا ہے ،ا صل مقابلہ جمہوری قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تھا، الیکشن کمیشن فوری طور پر مستعفی ہوجائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت دھاندلی شدہ ہے نئے سرے سے الیکشن ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اٹھارہویں ترمیم پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ کون آکر نظام کر درست کرے گا ، جب کرسی خالی ہوگی ، جگہ دی جائے گی تو قابضین آئیں گے ، ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 20جولائی کو میں نے کہا تھا کہ سارا کھیل آر ٹی ایس سے کھیلا جائیگا۔سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ ہمیں اپنی خود مختاری کا احترام ہونا چاہیے ، جو سانحہ ہوا الیکشن کمیشن ابھی تک ماننے کو تیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام دنیا کو پتہ ہے کہ کیا ہوا ، بہانے قوم کے مفاد میں نہیں ہیں ۔ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ایک پارلیمانی کمیشن جلد تشکیل دیا جانا چاہئے ۔سینیٹر بہرا مند تنگی نے کہا کہ2018کا الیکشن عمران خان کو وزیراعظم بنانے کیلئے تھا، ہمیں این اے 23 میں 260پولنگ اسٹیشنوں کا نتیجہ نہیں دیا گیا ، کل ایک وفاقی وزیر بھی کہہ رہتے تھے کہ یہ چوری کا الیکشن ہے ، عمران خان اس بات کا بھی جواب دیں کہ اب اگر ان کا وزیر جعلی الیکشن کہتا ہے تو عمران خان کس چیز کا دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں اس سے بڑ اجعلی مینڈیٹ کسی کو نہیں ملا ۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات