Live Updates

رحمدلی، خوف خدا اور احساس کے جذبے سے سرشار ریاست مدینہ کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کی حالت زار کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز ہے،

ابتدائی 100 روز میں ہماری کوشش رہی کہ جو بھی پالیسی بنائیں وہ عام آدمی کے فائدے کے لئے ہو، بدعنوانی پر قابو پا کر ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن اور غربت سے نجات دلا سکتے ہیں، غربت کی زنجیر توڑنے کے لئے ایک جامع منصوبہ کے تحت تخفیف غربت اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے‘ لاہور میں چھتوں سے محروم اور فٹ پاتھوں اور گلیوں میں سونے والے لوگوں کے لئے ’پناہ گاہ‘ کا قیام عمل میں لایا گیا‘ راولپنڈی اور کراچی میں بھی اس طرح کی پناہ گاہیں تعمیر ہو رہی ہیں، ماضی کی حکومتوں نے ایسے لوگوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا‘ ملک میں یکساں تعلیمی نظام کے قیام کے لئے وفاقی وزیر شفقت محمود کی قیادت میں کمیٹی بنائی گئی ہے وزیراعظم عمران خان کا حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب

جمعرات 29 نومبر 2018 23:48

رحمدلی، خوف خدا اور احساس کے جذبے سے سرشار ریاست مدینہ کے ماڈل کی پیروی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 نومبر2018ء) وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حکومت کے پہلے 100 دن کی کارکردگی اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ رحمدلی، خوف خدا اور احساس کے جذبے سے سرشار ریاست مدینہ کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کی حالت زار کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز ہے، ابتدائی 100 روز میں ہماری کوشش رہی کہ جو بھی پالیسی بنائیں وہ عام آدمی کے فائدے کے لئے ہو، بدعنوانی پر قابو پا کر ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن اور غربت سے نجات دلا سکتے ہیں، غربت کی زنجیر توڑنے کے لئے ایک جامع منصوبہ کے تحت تخفیف غربت اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے‘ لاہور میں چھتوں سے محروم اور فٹ پاتھوں اور گلیوں میں سونے والے لوگوں کے لئے ’پناہ گاہ‘ کا قیام عمل میں لایا گیا‘ راولپنڈی اور کراچی میں بھی اس طرح کی پناہ گاہیں تعمیر ہو رہی ہیں، ماضی کی حکومتوں نے ایسے لوگوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا‘ ملک میں یکساں تعلیمی نظام کے قیام کے لئے وفاقی وزیر شفقت محمود کی قیادت میں کمیٹی بنائی گئی ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو یہاں کنونشن سنٹر میں حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے معاشی صورتحال، معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے کی بہتری، کرپشن کے خاتمے، خارجہ پالیسی، زراعت، صنعت، سیاحت سمیت مختلف شعبہ جات میں حکومت کی کارکردگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گزشتہ 100 روز میں انہوں نے اور ان کی حکومت نے اللہ تعالیٰ کے نبی ؐ کی ریاست مدینہ کے ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرے کے کمزور اور غریب ترین طبقات کی بہبود کے لئے اپنی توجہ مرکوز کی۔

انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ میں نبی کریم ؐ جو پالیسی بنائی وہ عام انسانوں اور کمزور طبقات کو اوپر اٹھانے کی پالیسی تھی، دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آپ ؐ نے عام لوگوں کو اپنی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ بنایا، حالانکہ اس وقت کے دو طاقتوں روم اور فارس کے پاس دولت زیادہ تھی لیکن رحمدلی اور احساس کا جذبہ مدینہ کی ریاست کے بنیادی ستون تھے، آپ ؐ نے جو پالیسیاں بنائیں وہ غریبوں، بیوائوں، یتیموں اور مساکین کے لئے تھیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جانوروں اور انسانوں کے معاشرے میں فرق ہوتا ہے جانوروں کے معاشرے میں طاقت کا اصول چلتا ہے جبکہ انسانوں کے معاشرے میں رحم اور انصاف ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 100 دنوں میں ہم نے کوشش کی کہ ہم جو بھی پالیسی بنائیں وہ عام آدمی کے فائدے کے لئے ہو اور اس سے کمزور طبقات کو آگے بڑھنے کے مواقع ملے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کے کمزور اور نچلے طبقات کو اوپر اٹھانے کے لئے وہ مدینہ کی ریاست کی پیروی کر رہے ہیں۔

انہوں نے فٹ پاتھوں پر سونے والے محنت کش اور اس کے بچوں کی تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے کہنے پر لاہور میں چھتوں سے محروم اور فٹ پاتھوں اور گلیوں میں سونے والے لوگوں کے لئے ’پناہ گاہ‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر پانچ پناہ گاہوں کی نشاندہی کی، راولپنڈی اور کراچی میں بھی اس طرح کی پناہ گاہیں تعمیر ہو رہی ہیں، کمشنر اسلام آباد نے بھی جگہ کا انتخاب کر لیا ہے، ماضی کی حکومتوں نے ایسے لوگوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔

وزیراعظم نے اس موقع پر تخفیف غربت اتھارٹی قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس اتھارٹی کے تحت لوگوںکو غربت سے نکالنے کا ایک جامع طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے، سٹنٹڈ گروتھ کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہم چالیس لاکھ حاملہ خواتین اور بچوں کو متوازن غذا کی فراہمی کا منصوبہ رکھتے ہیں، اس سے اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد ملے گی، یہ بھی تخفیف غربت اتھارٹی کے تحت کیا جائے گا، غریبوں کے لئے بلا سود قرضوں کی فراہمی اور مکانات کی تعمیر کے لئے حکومت نے غیر سرکاری تنظیم ’’اخوت‘‘ کو پانچ ارب روپے دیئے ہیں، ہم مستقبل میں بھی اس طرح کے اقدامات جاری رکھیں گے، اسی طرح زکوة، بی آئی ایس پی، بیت المال اور دیگر اداروں کو بھی اسی اتھارٹی کے تحت لائیں گے اور اس کا افتتاح بہت جلد ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی کو وسعت دے رہے ہیں، پانچ سال میں کو 324 ارب روپے مہیا کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں غربت کی شرح زیادہ ہے، ہماری حکومت چھوٹے کسانوں کے لئے سہولیات فراہم کرنے کو ترجیح دے رہی ہے، ہم اپنے کسانوں کو مہارت، ٹیکنالوجی، مالی امداد اور علم پر مبنی ہنر کی فراہمی پر توجہ دیں گے، ایسے کسانوں کو ہم خصوصی زر اعانت دیں گے کیونکہ یہ ایسے کسان ہوتے ہیں جو علم، ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے کم پیداوار دیتے ہیں، ایسے کسانوں کی مدد کرنے سے ان کی پیداوار بڑھے گی جس سے لامحالہ ہماری برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا، کسانوں کو ہم نئی مشینری دیں گے، لیزر مشینری کے استعمال سے پانی کم خرچ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ دوستی اور اچھے تعلقات کے قیام کی ہماری نیت میں بھی غربت کا خاتمہ ایک بنیادی عنصر ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع ہونے سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ہم اپنے نچلے طبقات کو اٹھانے کے لائق ہو سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام کے قیام کے لئے وفاقی وزیر شفقت محمود کی قیادت میں کمیٹی بنائی گئی ہے، اس وقت ملک میں تین طرح کے تعلیمی نظام جاری ہیں، ایک چھوٹی ایلیٹ کلاس کے لئے انگلش میڈیم ہے جبکہ دیگر طبقات کے لئے رائج تعلیمی نظام سے طالب علموں کو آگے آنے کا موقع نہیں ملتا، ہم ایسی تعلیم لانا چاہتے ہیں جہاں سب کے لئے یکساں مواقع دستیاب ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ حصول علم اشد ضروری ہے کیونکہ علم حاصل کرنے سے معیار زندگی میں بہتری آتی ہے، ہماری پوری کوشش ہے کہ تعلیم میں طبقاتی تفریق کا خاتمہ ہو اور ہم اپنے ان بچوں کو سکولوں میں لا سکیں جو اس وقت سکولوں سے باہر ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت نے صحت کے شعبے کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے، صحت کے شعبے میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں، ہم سرکاری ہسپتالوں کو درست کرنا چاہتے ہیں، اس وقت نجی ہسپتال بہت اچھے ہیں اور سرکاری ہسپتال سہولیات کے حوالے سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن نجی ہسپتال میں صرف صاحب حیثیت لوگ ہی علاج کرا سکتے ہیں، اس لئے ہماری کوشش ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کو بہتر بنایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کو علاج معالجے کی فراہمی کے لئے صحت کارڈ کا دائرہ خیبرپختونخوا سے بڑھا کر پورے ملک تک پھیلا دیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وزیر خزانہ اسد عمر کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ ہم جو بھی پالیسی بنا رہے ہیں اس میں غریبوں اور نچلے طبقات کو اوپر لانے کے لئے توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ 22 سالوں سے بدعنوانی کے خاتمہ کی بات کر رہے ہیں، پاکستان تب ترقی کرے گا جب ہم بدعنوانی پر قابو پائیں گے، بدعنوانی ایک ایسا ناسور ہے جو غربت پیدا کرتا ہے، اس کی وجہ سے امیر امیر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے، وہ معاشرے جہاں کرپشن ہو گی وہاں غربت زیادہ ہو گی، جو ممالک خوشحال ہیں وہاں کرپشن کی سطح کم ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل دیئے ہیں، پاکستان کے ادارے کرپشن کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں، یہاں کرپشن کے لئے اداروں کو تباہ کیا گیا، ذاتی مفادات کے لئے ایف بی آر، ایس ای سی پی اور اس طرح کے دیگر اداروں کو من پسند افراد کی تعیناتیوںاور بھرتیوں کے ذریعے نقصان پہنچایا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب اقتدار سنبھالا تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ملک میں کتنی چوری ہو رہی تھی، حکومت سنبھالنے کے بعد ہمارے پاس معلومات آ رہی ہیں اور ہر روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب وہ کرپشن کی بات کرتے ہیں تو وہ ساری اپوزیشن کو نہیں صرف ان لوگوں کا حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے کرپشن کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچایا ہے، جب ان کی کرپشن کی بات ہوتی ہے تو ان کی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کرپشن پر قابو نہیں پاتے، پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ نیب آزاد ادارہ ہے، موجودہ حکومت نے نیب میں ایک چپڑاسی تک بھرتی نہیں کیا، جو کچھ نیب کر رہا ہے، اس کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں، میرا خیال ہے کہ نیب اس سے بہتر کام کر سکتا ہے، تنقید سب کو برداشت کرنی چاہیے، نیب اگر صحیح طریقے سے احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھائے گا تو سزائوں کی شرح کم ہو گی، ملائیشیا میں کرپشن کے کیسوں میں سزائوں کی شرح 90 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح تقریباً 6 سے 7 فیصد ہے اور یہاں زیادہ تر پلی بارگین پر انحصار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں نیب کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعض قانونی معاملات کی وجہ سے ہم ایسا نہیں کر سکتے تاہم ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو مضبوط بنایا جا رہا ہے، انہی کوششوں کے نتیجے میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں ایسٹ ریکوری یونٹ بنایا گیا ہے، اس یونٹ کا کام بیرون ممالک کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرنا ہے، اب تک 26 ملکوں کے ساتھ ایم او یوز پر دستخط کئے گئے ہیں، سوئٹزرلینڈ کے ساتھ آج ہی ایم او یو پر دستخط ہوئے، اب تک اس یونٹ نے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق 26 ممالک میں پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالر کا سراغ ملا ہے اور سوئٹزرلینڈ ابھی اس میں شامل نہیں جبکہ پاکستان کو اس وقت بیرونی قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لئے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، یہ معلومات صرف 26 ممالک کی ہیں، اسی طرح دبئی سے بینک اکائونٹس کی جو تفصیلات ملی ہیں، وہاں 1.35 ارب ڈالر کے اکائونٹس کا پتہ چلا ہے، ان میں اقامہ ہولڈرز کے اکائونٹس کی تفصیلات شامل نہیں ہیں، لوگوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ماضی میں ملک کا وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ اقامے کیوں لیتے رہے، گزشتہ حکمرانوں کو اقاموں کی ضرورت تھی کیونکہ ایسے اقامے رکھنے والوں کے اکائونٹس کی تفصیلات افشا نہیں کی جاتیں، ہمیں اقاموں کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دبئی میں پاکستانیوں کی 9 ارب ڈالر کی جائیداد کا پتہ چلا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے خلاف موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ اقدامات کئے ہیں، ایف آئی اے نے اب تک 375 ارب روپے کے جعلی اکائونٹس پکڑے ہیں، یہ جعلی اکائونٹس منی لانڈرنگ کے لئے بنائے گئے تھے، ہماری حکومت نے پہلی مرتبہ منی لانڈرنگ پر ہاتھ ڈالا ہے، ہم ایف آئی اے کو مضبوط بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ قرضوں پر ہر روز چھ ارب روپے کا سود دے رہے ہیں۔ حکومتی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک بھر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، سی ڈی اے کے پاس پیسے نہیں ہیں حالانکہ سی ڈی اے نے تجاوزات کے خلاف کارروائی میں 350 ارب روپے کی اراضی واگزار کرائی ہے۔ انہوں نے تقریب میں موجود وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ دلیر، سادہ اور ایماندار آدمی ہے، ڈرامے نہیں کرتے، نہ ہی بڑی بڑی ٹوپیاں پہن کر گھومتے ہیں، پنجاب حکومت نے اب تک تجاوزات کے خلاف کارروائی میں 88 ہزار ایکڑ زمین قبضہ مافیا سے واگزار کرائی ہے جس کی قیمت کا ابھی اندازہ نہیں ہے اور اس کی مالیت 150 سے 200 ارب روپے کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں پہلی مرتبہ بجلی چوروں کے خلاف منظم سطح پر کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ انہوں نے وزیر توانائی عمر ایوب کو سراہتے ہوئے کہا کہ بڑے بڑے بجلی چوروں کے خلاف چھ ہزار ایف آئی آرز درج کرائی گئی ہیں، پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی ایک بڑی وجہ اس کی چوری ہے، ہر سال 50 ارب روپے کی چوری ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک میں کاروبار کے فروغ اور سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے بھی اقدامات اٹھا رہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ حلال مصنوعات کی بین الاقوامی مارکیٹ 2 ہزار ارب ڈالر سالانہ ہے جس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ لائیو سٹاک کے شعبے میں پاکستان دس سرفہرست ممالک میں شامل ہے، بیرونی سرمایہ کار بھی یہاں اس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنے کسانوں کو مراعات اور ترغیبات دے کر اس شعبے میں موجود استعداد کار سے استفادہ کر سکتے ہیں، اگر ہم کام کریں تو ہم پاکستان سے گوشت کی برآمدات میں اضافہ کر سکتے ہیں، اس ضمن میں ہم اپنے کسانوں اور لائیو سٹاک فارمرز کو سبسڈی دیں گے جس سے تین سے چار لاکھ کسانوں کو فائدہ پہنچے گا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو منہ کھر کی بیماری سے پاک بنانے کے لئے بھی کام کریں گے، اس سے گوشت اور لائیوسٹاک کی برآمدات بڑھیں گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ماہی گیری کا شعبہ بھی اپنی استعداد کار کے مطابق پیداوار نہیں دے رہا، پاکستان کے پاس ایک ہزار کلومیٹر سمندر ہے جبکہ سمندری خوراک کی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہے، پاکستان اس شعبے میں اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے، پاکستان میں اراضی کا ایک بڑا حصہ سیم زدہ ہے، سیم والے علاقوں میں جھینگوں کی بہترین فارمنگ ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ چین کی طرز پر کیجڈ فشنگ فارمنگ کو بھی فروغ دیا جائے گا، بلوچستان میں اس حوالے سے بہت زیادہ استعداد موجود ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو با اختیار بنانے کے ضمن میں انہیں معاشی ترغیبات دی جائیں گی، دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو دیسی مرغیاں اور انڈے اور چوزے دیئے جائیں گے، یہ سب ایسے اقدامات ہیں جن پر زیادہ اخراجات نہیں آئیں گے اور اس کا براہ راست فائدہ غریبوں کو پہنچے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت منڈی میں مسابقت پیدا کرنے پر توجہ دے رہی ہے، آڑھت کے کام میں مسابقت کے لئے ہم زیادہ منڈیاں قائم کر رہے ہیں، لاہور میں بہت جلد ایک بہت بڑی منڈی کا افتتاح ہو گا، اسی طرح پانی کی کمی ایک بڑا ایشو ہے، ہم نے تحقیق کی اور پتہ چلا کہ اگر سارے واٹر کورسز، نہروں اور کھالوں کو اگر پختہ کیا جائے تو اس سے ہمیں 140 ارب روپے کی بچت ہو گی، اگر ہم 70 ہزار کھالوں کو پختہ کرینگے تو ملک میں بھاشا ڈیم سے زیادہ پانی موجود ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ ہم کم پانی کے ساتھ زیادہ پیداوار پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

ملکی معیشت کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کو آگے بڑھانے کے لئے ہماری بیوروکریسی اور سیاسی طبقے کو اپنی سوچ بدلنی ہو گی جب تک سرمایہ کار کو منافع نہیں ملے گا تو وہ سرمایہ کاری نہیں کرے گا، ہم سرمایہ کاروں کو مراعات اور ترغیبات نہیں دیں گے تو کوئی سرمایہ کاری کے لئے نہیں آئے گا، ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسی منصوبے پر عمل کیا، انہوں نے بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیبات دیں جس کی وجہ سے تین کروڑ آبادی کا حامل ملائیشیا سالانہ 220 ارب ڈالر جبکہ اس کے مقابلہ میں 21 کروڑ آبادی کا حامل پاکستان 25 ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 70 کے عشرے میں اداروں کو قومیانے کا فیصلہ غلط تھا، اس وقت پاکستان تیزی سے آگے جا رہا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت سرمایہ کاری، برآمدات میں اضافہ، ترسیلات زر اور ٹیکس اصلاحات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لئے برآمد کنندگان کے لئے گیس اور بجلی کی مد میں سہولیات دی گئی ہیں، ملک میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے فیصلہ کرنا ہو گا، پاکستان سرمایہ کاری کے لئے سازگار ملک ہے کیونکہ پاکستان کی 12 کروڑ آبادی کی عمر 35 سال سے کم ہے، یہ ایک بڑی گروتھ ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لئے یہ ایک پرکشش امر ہے، چین نے نوجوان آبادی کو ہنر مند بنا کر وہاں پر سرمایہ کاری کے لئے راہیں ہموار کیں جس کی وجہ سے وہ اپنے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے میں کامیاب ہوا، پاکستان میں محل وقوع کے لحاظ سے اچھا ملک ہے، ہمارے پاس وسائل ہیں، یہاں پر بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ترسیلات زر کے شعبے میں بھی کافی کام کرنے کی گنجائش ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر قانونی ذرائع سے پاکستان پیسہ بھیجنے میں آسانیاں فراہم کی جائیں تو پاکستان کو ترسیلات زر کی مد میں مزید 10 سے 12 ارب ڈالر آسانی سے مل سکتے ہیں، یہ وہی رقم ہے جو ادائیگیوں میں توازن کے لئے ہمیں ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات بھی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں، ملک میں اس وقت صرف 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف 72 ہزار ایسے ہیں جو دستاویزات اپنی آمدن 2 لاکھ سے زائد ظاہر رہے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا کہ 21 کروڑ لوگوں کا بوجھ یہ 72 ہزار ٹیکس گزاروں کو اٹھانا پڑے، اس کو ٹھیک کرنا ہے، ہم ایف بی آر میں اصلاحات کر رہے ہیں اور اس کے نتائج قوم دیکھے گی، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس دائرہ کار میں توسیع لانا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سمگلنگ کی روک تھام بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور ایسا کرنا ضروری بھی ہے کیونکہ جو سرمایہ کار یہاں ٹیکس دے کر اپنا بزنس چلا رہے ہیں اور پیداوار دے رہے ہیں، اس کے مقابلے میں سمگلنگ سے چیزیں لانے سے سستی ہونی کی وجہ سے ان لوگوں کو نقصان ہو رہا ہے جو لوگ ٹیکس دے کر یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بلیک اکانومی کا راستہ روکنا ہو گا کیونکہ یہ ہماری ترقی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیاحت کے شعبے کو فروغ دینا بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے ملائیشیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سمندر پر ریزارٹ بنائے ہیں جس کی وجہ سے وہ سالانہ 20 ارب ڈالر کما رہے ہیں، اس کے مقابلے میں پاکستان میں بہت زیادہ استعداد موجود ہے، پاکستان کے پاس ایک ہزار کلومیٹر طویل سمندری پٹی ہے، یہاں پر مذہبی سیاحت کی گنجائش ہے، پاکستان میں بدھ مت کے نایاب آثار موجود ہیں، ہری پور کے قریب بدھا کا دنیا کا سب سے بڑا 40 فٹ کا مجسمہ ’’سلیپگ بدھا‘‘ ملا ہے، ہم ساحلی علاقوں میں اپنی مذہبی روایات اور ثقافت کے مطابق سیاحتی مقامات بنا سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سوئٹزرلینڈ سے دو گنا زیادہ رقبے کے حامل ہیں، یہاں پر دنیا کے بلند ترین پہاڑے سلسلے ہیں، سیاحت کے فروغ کے لئے قومی سیاحت ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے، ہم ہر سال چار نئے ریزارٹ کھولیں گے، ہم ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ سیاحت کو فروغ دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے عام آدمی کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں شامل ہے، موجودہ حکومت نے قانونی اصلاحات پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے، حکومت ضابطہ دیوانی میں اصلاحات لا رہی ہے، اس کے تحت مقدمات کے فیصلے ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر ہوں گے، بیوائوں اور خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کے لئے خصوصی قانون لایا جا رہا ہے، اسی طرح سمندر پار پاکستانیوں کی جائیداد کے تحفظ کے لئے بھی قانون لایا جا رہا ہے، غریبوں کے لئے پہلی بار لیگل ایڈ اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے جس کے تحت غریبوں اور وسائل نہ رکھنے والے سائلین کو وکیل کی سہولت فراہم کی جائے گی، اسی طرح وسل بلور ایکٹ پر بھی کام ہو رہا ہے جس کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو ریکور ہونے والی رقم میں سے 20 فیصد رقم دی جائے گی اور اسے تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہیں اندازہ ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت تنخواہ دار طبقہ اور نچلا طبقہ تکلیف میں ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں پر اثرات مرتب ہوئے اس کا مجھے احساس ہے اور ہم جتنی بھی کوشش کر سکتے ہیں ہم کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزارتوں اور ڈویژنوں کو بچت اور کفایت شعاری کے بارے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں، گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان نے اب تک 13 کروڑ روپے کا صوابدیدی فنڈ استعمال نہیں کیا، یہ بھی ایک بچت ہے، وزیراعظم ہائوس میں اب تک 15 کروڑ روپے کی بچت کی ہے، بعض لوگ بھینسوں کی نیلامی کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن یہ مذاق نہیں ہے، لوگوں کو اپنے کھانے کے لئے میسر نہیں اور دوسری طرف سرکاری وسائل خرچ ہو رہے تھے، یہ سب ہم کسی کو دکھانے کے لئے نہیں بلکہ خوف خدا کی وجہ سے کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے پاکستان کے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم حالات کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، یہ مشکل وقت ضرور ہے لیکن ہم پالیسیاں بنا رہے ہیں، انشاء اللہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جیسے ہی ان پالیسیوں پر عمل ہو گا، سرمایہ کاری آئے گی تو مسائل کم ہونا شروع ہو جائیں گے، ماضی میں لوگ پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں کر رہے تھے، ہماری سب سے بڑی طاقت بیرون ملک مقیم 90 لاکھ پاکستانی ہیں، ان میں مختلف پیشوں کے ماہرین اور ہنر مند افرادی قوت شامل ہے، جب ہم ملک کا نظام بہتر بنائیں گے تو سب سے پہلے یہی پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کے لئے آئیں گے، وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت ہائوسنگ کے شعبے میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے، ہم مکانات کے لئے قرضوں کے حصول (مارگیج) کے طریقہ کار کو آسان بنا رہے ہیں، اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ مکانات کی کمی ہے، ماضی میں مارگیج نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے کے لئے قرضہ نہ ہونے کے برابر تھے، پاکستان میں مارگیج کا جی ڈی پی میں حصہ 0.2 فیصد ہے، اس شعبے میں ہم سرخ فیتے کا خاتمہ کر رہے ہیں اس سے چالیس صنعتوں کو بالواسطہ فائدہ پہنچے گا اور نچلے گریڈ والے سرکاری ملازمین کو اپنے گھر بنانے میں مدد ملے گی۔

اپنی تقریر کے آخر میں وزیراعظم نے اپنی ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور علامہ اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ بھی پڑھا ’’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات