سوئی ناردرن اور سوئی سدرن کے سالانہ 48ارب روپے کے لائن لاسز ہیں،سالانہ ایک فیصد کمی لائی جائیگی‘ وزیر پیٹرولیم وقدرتی وسائل

وزارت پیٹرولیم کی 14کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ، حکومت فی الحال کوئی گیس معاہدہ ختم نہیں کر رہی حکومت زیرو ریٹڈ برآمدی انڈسٹری کو چلانے کی غرض سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دے گی ،ضرورت پڑی تو مزید بھی دینگے ایل این جی معاہدہ 15سال کیلئے ہے اور اس کی شرائط پبلک نہیں کی جا سکتیں‘ غلام سرور خان کی سوئی نادرن کے ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس

پیر 3 دسمبر 2018 18:50

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 دسمبر2018ء) وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل غلام سرور خان نے کہا ہے کہ سوئی ناردرن کے سالانہ 22 ارب اور سوئی سدرن کے 26 ارب روپے کے لائن لاسز ہیں اور کوشش کر کے ان میں سالانہ ایک فیصد کمی لائی جائے گی، وزارت پیٹرولیم کی 14کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، حکومت فی الحال کوئی گیس معاہدہ ختم نہیں کر رہی، قومی احتساب بیورو اور سپریم کورٹ ایل این جی معاہدے کے معاملہ کا جائزہ لے رہے ہیں،حکومت زیرو ریٹڈ برآمدی انڈسٹری کو چلانے کی غرض سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دے گی اور اگر ضرورت پڑی تو مزید سبسڈی دیں گے ، ملک میں تمام بحرانوں کے ذمہ دار وہ ہیں جو تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سوئی ناردرن کے ہیڈ کوارٹر ز میں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سوئی ناردرن کے منیجنگ ڈائریکٹر امجد لطیف سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا کہ حکومت برآمدات کے فروغ کے لئے کوشاں ہے اس مقصد کیلئے حکومت زیرو ریٹڈ صنعتوں کو 25 ارب روپے کی سبسڈی دے گی جس کے تحت صنعتوں کو سبسڈائز بل آئیں گے ۔

سرکاری ریڈیو کے مطابق صنعتوں کو تسلسل سے گیس فراہم کی جا رہی ہے اور 16اکتوبر سے اگلے سال جون تک بلوں پر سبسڈی دی جائے گی ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ تین منصوبے تجویز کئے گئے ہیںجس سے انڈسٹری کو بلاتعطل گیس فراہم کریں گے جبکہ سردیوں میں بھی بلاتعطل گیس کی فراہمی جاری رہے گی،کھاد انڈسٹری کو سبسڈائز ریٹس پر مارچ تک گیس دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی بحران کے باعث فیصل آباد سمیت مختلف علاقوں میں صنعتیں بند ہوئیں جس سے ملکی برآمدات میں کمی واقع ہوئی۔

سوئی ناردرن کی طرف سے شیڈولڈ لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں گیس نرخ یکساں کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزارت پیٹرولیم میں 14 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جس میں پانچ لسٹڈ ہیں اور 9 نان لسٹڈ ہیں،حکومت نے تمام کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آئندہ 100 روز میں 14 نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز تعینات کئے جائیں گے جن میں زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر ،ْ بزنس سیکٹر ،پبلک سیکٹر اور پروفیشنلز ہوں گے اورصوبوں کو نمائندگی دی جائے گی جو اپنا چیئرمین خود منتخب کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سوئی ناردرن گیس کے سالانہ 22 ارب روپے اور سوئی سدرن کے 26 ارب روپے لائن لاسز ہیں ، ہماری کوشش ہے کہ ہم اس میں سالانہ ایک فیصد کمی لائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ مرض کی تشخیص کر کے علاج کا تعین کر لیا ہے اب ہم نے بروقت سرجری کرنی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں گیس کی پیداوار ہوتی ہے وہاں پانچ کلومیٹر تک گیس فراہم کرنا پالیسی میں شامل ہے۔

پنجاب میں پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار باقی صوبوں سے کم ہے لیکن یہاں پر سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے، بلوچستان کی پیداوار 25 فیصد اور کھپت 15 فیصد ہے ،ْخیبر پختوانخواہ میں پیداوار 410 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ ضرورت تین سو ایم ایم سی ایف ڈی ہے باقی 110 ایم ایم سی ایف ڈی پنجاب کو ملتی ہے۔انہوں نے کہا کہ قطر سے ایل این جی معاہدہ پر بڑے اعتراضات اٹھ رہے تھے ، نیب اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے معاہدہ کے معاملہ کا جائزہ لیا جا رہا ہے، کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہوا ہے،ایل این جی معاہدہ 15سال کیلئے ہے اور اس کی شرائط پبلک نہیں کی جا سکتیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کوئی بھی گیس معاہدہ ختم نہیں کر رہی،،ْ ایران اور تاپی کے معاہدے موجود ہیں، ترکمانستان ایل این جی معاہدہ قطر اور ایران سے سستا ہے۔ انہوںنے کہا کہ (ن) لیگ کے خلاف بات کرنا ثواب سمجھتا ہوں کیونکہ ملک میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی پانی اور توانائی بحرانوں کے ذمہ دار ہیں۔انہوں نے کہا کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے، ترکمانستان کے سفیر نے بتایا ہے کہ افغانستان میں پائپ لائن بچھانے کا گرانڈ پر کام شروع ہو چکا ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے سو دنوں میں سمت کا تعین کر لیا ہے، بہت جلد عوام کو ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے۔