Live Updates

پنجاب اسمبلی ،اپوزیشن کانیب کی جانب سے آغا سراج درانی کی گرفتاری کیخلاف احتجاج ،ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ

پیپلز پارٹی کونیب کے اقدام کیخلاف قرارداد پیش کرنیکی اجازت نہ ملی /پیپلز پارٹی کے اراکین کی بازئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کراجلاس میں شرکت سراج درانی کو گرفتار کرکے اسپیکر کی کرسی کی توہین کی گئی،تانے بانے یہاں بھی پہنچ سکتے ہیں،گرفتاری جمہوریت پر شب خون ہے ‘پیپلز پارٹی نیب کے قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے ،مطالبے کی قرارداد منظو رہو کر قومی اسمبلی جانی چاہیے اور وزیر اعظم تک بھی آواز پہنچنی چاہیے‘ سلمان رفیق ملک اس وقت ایک ہی بیانیہ بنایا جارہا ہے صرف سیاستدان ہی چور ہیں،ایک ادارہ احتساب گردی کررہا ہے ‘ عظمیٰ بخاری ، میاں نصیر اپنی قوم سے وعدہ کرنا چاہتا ہوں آپکا اوراورمقدس ہاؤس کا سر جھکنے نہیں دوں گا،اپنے قائد عمران خان کیساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوں‘ عبد العلیم خان ن) لیگ نے کیوںڈریکونین لاز کو ختم نہ کیا،ہم آج ان کوتاہیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں،اپوزیشن وفاق میں مدد کرے‘ وزیر قانون راجہ بشارت

جمعرات 21 فروری 2019 22:06

7لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 فروری2019ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے نیب کی جانب سے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ کیا ، پیپلز پارٹی کونیب کے اقدام کیخلاف قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ ملی ،حکومت دوسرے روز بھی کورم پورا نہ کر سکی جس کی وجہ سے اجلاس آج ( جمعہ ) صبح تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی اپنے مقررہ وقت کی بجائے ایک گھنٹہ پندرہ منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔پیپلز پارٹی کے اراکین سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف بازئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شریک ہوئے ۔ اجلاس کے آغاز پر نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی نے کہا کہ سندھ اسمبلی کے سپیکرآغا سراج درانی کو گرفتار کرکے اسپیکر کی کرسی کی توہین کی گئی ہے،یہ معاملہ کسی شخص کا نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے، نیب تحریک انصاف کی آلہ کار بنی ہوئی ہے،ہم پارلیمانی بالادستی کی جنگ لڑتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے احتساب کے نام پر پر انتقام ہو رہا ہے،احتساب اور انتقام کے درمیان ایک باریک لائن ہے ،احتساب سب کا ہونا چاہیے،ہم کسی کی چوری کی پردہ پوشی نہیں کرتے لیکن اداروں کا تقدس پامال نہیںہونا چاہیے۔اسپیکر کو نجی دورے کے دوران گرفتار کر کے کیا پیغام دیا گیا،کیا انہوں نے کراچی واپس نہیں جانا تھا ۔کسٹوڈین آف ہائوس کو انکوائری کے دوران گرفتار کیا گیا،سپیکر کی گرفتاری کے تانے بانے یہاں بھی پہنچ سکتے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی، وزیر دفاع اور بابر اعوان کے خلاف بھی انکوائری چل رہی ہے۔احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اداروں کی تضحیک برداشت نہیں کریں گے ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اور بے نظیر کو شہید بھی جڑواں شہر میں کیا گیا،ہم نے پھر بھی کھپے پاکستان کانعرہ لگایا، لیکن چھوٹے صوبوں کو تعصب کا پیغام دیا جا رہا ہے،چھوٹے صوبوں کو ایسے پیغام دے کر کون سی فیڈریشن کو مضبوط کیا جارہا ہے ۔

پیپلز پارٹی کے رکن مخدوم عثمان محمود نے کہا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری جمہوریت پر شب خون کے مترادف ہے ،اس گرفتاری پر خاموش نہیں رہیں گے ۔انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل ضرور کریں لیکن سلیکٹڈ احتساب کسی صورت قابل قبول نہیں،آغا سراج درانی کی گرفتاری پر ایوان کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کریں گے۔ انہوںنے کہا کہ کسٹوڈین آف دی ہائوس کی اس طرح گرفتاری قابل مذمت ہے،ہم عبد العلیم خان کی گرفتاری کی بھی مذمت کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ کیا جس پر (ن) لیگ کے اراکین نے بھی ان کا ساتھ دیا ۔کچھ دیر بعد صوبائی وزراء چوہدری ظہیر الدین ، میاں محمود الرشید اور میاں اسلم اقبال اپوزیشن کو منا کر واپس ایوان میں واپس لے آئے ۔(ن) لیگ کے خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ میں نیب میں گرفتار چند لوگوں کی نہیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کے حقوق کی بات کر رہا ہوں ۔

یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے ، ایک انوسٹی گیشن آفیسر کے کہنے پر گرفتار ی ہو جاتی ہے ،فیملیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے ،پلی بار گین کر کے اغواء برائے تاوان وصول کر رہے ہیں، یہاں سے مطالبے کی قرارداد منظو رہو کر قومی اسمبلی جانی چاہیے اور وزیر اعظم تک بھی آواز پہنچنی چاہیے ۔ قمر الاسلام راجہ کو سات ماہ قید رکھا گیا لیکن ہائیکورٹ کے آڈر پڑھ لیں اور سب کیسوں کا یہی حال ہونا ہے انہوں نے کہا کہ اگر ہم نیب قانون میں تبدیلی نہیں کر سکے تو کیا اب بھی نہیں ہونی چاہیے ، نیب قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں میں بھی رویے مختلف ہیں ، یہاں پروڈکشن آڈر ہو جاتا ہے لیکن قومی اسمبلی میں میر ے بھائی سعد رفیق کا پروڈکشن آڈر نہیں ہوتا ، کہا جاتا ہے کہ منع کیا گیا ہے ۔ عظمی بخاری نے کہا کہ آغا سراج درانی اور عبد العلیم خان کی گرفتاری قابل مذمت ،اگر ارکان اسمبلی کی گرفتاری سے ملک کی کرپشن ختم ہوتی ہے تو ہم سب کو گرفتار کر لیں،ایک سرکاری ملازم کی کوئی پوچھ گچھ نہیں،شادی پر کروڑوں روپے لگا دئیے جاتے ہیں،سرکاری ملازم کی خواتین شادیوں میں کروڑوںروپے کے زیورات پہنتی ہیں،اثاثے صرف سیاستدان ڈکلیئر کرتا ہے اور کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں،میں اس وقت حیران ہوئی جب ایک سابق نگران وزیراعظم جو ریٹائر جج تھے انہوں نے اندرون اور بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثے ظاہر کئے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت ایک ہی بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ صرف سیاستدان ہی چور ہیں۔میاں نصیرنے کہا کہ ایک ادارہ احتساب گردی کررہا ہے کہیں سے ڈوری ہلائی جارہی ہے،ٹی وی پر اراکین کیخلاف بیان چلائے جاتے ہیں۔علیم خان نو سال سامنا کرتے ہیں کچھ نہیں ہوتا مگر جس دن وزیر اعلی بننے لگتے ہیں بلاوا آجاتا ہے ،چوہدری پرویز الٰہی صاحب کیلئے بھی کہا گیا کہ ان کا نام بھی ڈال دیا جاجائے ،جان بوجھ کر سیاست اور اداروں کو تباہ کیا جارہا ہے ،جب کچھ نہیں ملتا تو آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنا دیا جاتا ہے۔

عظمیٰ کاردار نے کہا کہ نیب کے کالے قوانین خود (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور میں بھی موجود رہے ،انہوں نے قوانین میں ترمیم کیوں نہیں کی ۔اپوزیشن سے سوال کرنا چاہوں گی کہ اداروں کو پچھلے دس سال میں ٹھیک کیوں نہیں کیا گیا،حمزہ شہباز بتائیں پچھلے دس سال میں پروڈکشن آرڈرز رولز کیوں نہیں بنائے ۔عبدالعلیم خان نے کہا کہ میں سپیکر کا دل کی اتھاہ گہرایوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے پروڈکشن آرڈر جاری کیا۔

میں 2003 میں پہلی بار اس اسمبلی کا رکن منتخب ہوا،میں نے بطور ممبر اور وزیر پوری ایمانداری سے اس قوم کی خدمت کی ہے ،اس ایوان میں اگر کسی ایک شخص نے بھی مجھے دیکھا ہو کہ علیم خان نے کسی ٹھیکے میں کوئی ہیرا پھیراا کی ہو تو بتائیں،میرا اللہ میرا گواہ ہے میں نے کبھی غلط کام نہیں کیا،اس ملک میں عام آدمی کا جو حال ہے اسکی بہتری کیلئے حصہ ڈالنے کا سوچتا ہوں،میں نے کبھی اپوزیشن کے کسی کارکن کیساتھ بھی زیادتی نہیں کی ،میں نے رکن اسمبلی کا حلف اٹھانے کے بعد پانچ بار نیب میں خود کو پیش کیا،پچھلی پیشی پر جو کچھ جمع کروا کر آتا اگلی باری اسی میں سے چیزیں نکال کر سوالات کئے جاتے تھے ،میں نے دس سال اپوزیشن کی اور ڈٹ کر کام کیا،اپنے قائد عمران خان کیساتھ کھڑا ہوا اور ڈٹ کر کھڑا ہوں،میں نے کاروبار کیا اور میرے دوست کہتے تھے کہ تم کاروبار کرو گے تو پھنس جا گے ،آج میں اپنی قوم سے وعدہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپکا سر کبھی جھکنے نہیں دوں گا،میں نے سر اٹھا کر کاروبار کیا اور سر اٹھا کر سیاست کی ہے ،اپنے اللہ کیساتھ جھوٹ نہیں بولا جا سکتا،میں مقدس ہاؤس کا سر جھکنے نہیں دوں گا۔

وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے دس سال حکومت کی ،انہوں نے کیوںڈریکونین لاز کو ختم نہ کیا،ہم آج ان کوتاہیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں،ہمارے بھائیوں کو اپنی پارٹیوں کو کہنا چاہیے کہ وہ وفاق میں ہماری مدد کریں،حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لوگو ں پر نیب کیسز ہیں ،یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت یہ کاروائیاں کر رہی ہے ،ہمیں خود احتسابی کا نظام لانا ہوگا اور اپنا احتساب خود کریں باہر سے کوئی کیوں ہمارا احتساب کرے ۔

ملک وحید نے کہا کہ ہم بالکل بھی عبد العلیم خان کو چور اور ڈاکو نہیں کہیں گے ،ایوان میں بیٹھا کوئی بھی رکن آمدن سے زائد اثاثوں کا حساب نہیں دے سکے گا۔اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رکن سید علی حیدر گیلانی نے کیآغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف آئوٹ آف ٹرن قرارداد پیش کرنا چاہی تاہم پینل آف چیئرمین میاں شفیع نے کثرت رائے کی بنیاد پر قرارداد پیش کرنے کی اجازت رد کردی۔

وقفہ سوالات کے دوران رکن اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری اور سعید اکبرنوانی نے انکشاف کیا کہ ایوان میں پیش کئے جانے والے سوالات کے جوابات 1122کی جانب سے ایک روز قبل ہی میڈیا پر نشر کردیئے گئے جو کہ رولز کے خلاف ہیں اور ایسا کرنے والے کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ اس حرکت سے اس ایوان کا اور ممبران کا تقدس پامال ہوا ہے۔ جس پر راجہ بشارت نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو سوال ممبران نے کئے ہیںان کا جواب متعلقہ وزیر ایوان میں ہی دے سکتا ہے اوردوسرا کوئی اس پر پریس ریلیز جاری نہیں کر سکتا ، میں محکمہ کی اس حرکت پر ایکشن ضرور لوں گا اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اجلاس میں ابھی سرکاری کارروائی کا اآغاز نہیں ہوا تھا کہ رکن اسمبلی زیب النساء اعوان نے کورم کی نشاندہی کردی ۔ تعداد پوری نہ ہونے پر پانچ منٹ کے لئے گھنٹیا ںبجانے کے باوجود کورم پورا نہ ہوا جس پر اجلاس آج جمعہ صبح9بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات