Live Updates

معاشی میدان میں حکومت کی ایک سالہ کارکردگی: معیشت کی دستاویز بندی اور اقتصادی استحکام کیلئے مؤثر اقدامات کی پیروی

ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر خصوصی توجہ، ٹیکس کے منصفانہ نظام اور محصولات میں اضافہ کیلئے خصوصی اقدامات سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں ہدف سے زیادہ اضافہ ریکارڈ، وسیع البنیاد ٹیکس پالیسی اور انتظامی اصلاحات اور سمندرپار پاکستانیوں کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان

جمعہ 16 اگست 2019 14:40

معاشی میدان میں حکومت کی ایک سالہ کارکردگی: معیشت کی دستاویز بندی اور ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اگست2019ء) وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے سال میں معاشی عدم استحکام کے خاتمے، معیشت کی دستاویز بندی اور اقتصادی استحکام کیلئے مؤثر و سخت زری اور مالیاتی اقدامات کئے، ایکسچینج ریٹ کی مارکیٹ کے تقاضوں اور حرکیات کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کی گئی، اخراجات پر قابو پایا گیا، غیر ضروری درآمدی اشیاء پر ڈیوٹیوں کی شرح میں اضافہ جبکہ توانائی کی قیمتوں کی حقیقی بنیادوں پر ایڈجسٹمنٹ کویقینی بنایا گیا جس کی وجہ سے ماضی کی حکومتوں کی اقتصادی بوجھ سے شدید متاثر ہونے والی معشیت کو پٹری پر ڈالنے میں مدد ملی۔

مالیاتی خسارہ پر قابو پانے کیلئے حکومت ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر توجہ دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

ان اصلاحات کا بنیادی مقصد محصولات اور اخراجات کے درمیان خلیج کو کم کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے ٹیکس کا منصفانہ نظام استوار کیا جا رہا ہے جبکہ محصولات میں اضافے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ محصولات کے ضمن میں حکومت نے جو حکمت عملی مرتب کی ہے اس کے تحت وسیع البنیاد ٹیکس پالیسی اور انتظامی اصلاحات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جن کا مقصد جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح بڑھانا ہے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق سمندر پار مقیم پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ترجیحات میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں پر اعتماد اور دیارغیر میں مقیم پاکستانیوں کی وزیراعظم عمران خان پر اعتماد و یقین کی وجہ سے حکومت کے پہلے سال میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں ہدف سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

حکومت کے پہلے سال سمندر پار پاکستانیوں نے 21.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کی۔ مالی سال 2017-18ء کے دوران سمندر پار مقیم پاکستانیوں نے 19.91 ارب ڈالر کا زرمبادلہ ملک بھیجا تھا۔ یوں حکومت کے پہلے سال ترسیلات زر میں 9.68 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جولائی 2018ء سے لیکر مارچ 2019ء تک جی ڈی پی کے تناسب سے مالیاتی خسارہ 5 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق حکومت کو ماضی کے ادوار میں لئے گئے قرضوں اورواجبات، حسابات جاریہ اور مالیاتی خسارہ، زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر، برآمدات میں کمی،گردشی قرضہ اور سرکاری اداروں کے قابل رحم صورتحال کا بھاری بوجھ ورثے میں ملا تھا۔ معاشی عدم استحکام کے خاتمے اور معیشت کو پائیدار بڑھوتری اور استحکام کی راہ پر ڈالنے کیلئے حکومت نے سخت زری اقدامات کو یقینی بنایا، ایکسچینج ریٹ کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی، اخراجات پر قابو پایا گیا، غیرضروری درآمدی اشیاء پر ڈیوٹیوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا جبکہ توانائی کی قیمتوں کی حقیقی بنیادوں پر ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔

مارکیٹ کے اعتماد کو بحال کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کیلئے حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت کے معاہدے کا فیصلہ کیا، علاوہ ازیں دو طرفہ اور کثیر الجہتی پارٹنرز سے مالیاتی تعاون کا حصول یقینی بنایا گیا۔ ان اقدامات کا بنیادی مقصد معیشت کو مستحکم بنانا تھا تاکہ بڑھوتری کو یقینی بنایا جا سکے۔

مالی سال 2019ء میں مجموعی قومی پیداوار کی عبوری بڑھوتری کی شرح 3.29 فیصد رہی جس کی بنیادی وجہ زرعی شعبے میں 0.5 فیصد کے تناسب سے ترقی تھی۔ زراعت کے شعبے میں کم ترقی کی وجوہات میں اہم فصلوں کی منفی بڑھوتری بھی شامل ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت کی لائف لائن ہے۔ ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ 19 فیصد ہے۔ اسی طرح لیبر فورس کو کھپانے میں اس شعبے کا حصہ 38.5 فیصد بنتا ہے۔

زراعت کا شعبہ کئی ویلیو ایڈڈ شعبوں کو خام مال کی فراہمی کی ذمہ داری بھی سرانجام دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتصادی بڑھوتری اور غربت کے خاتمے کی حکمت عملی میں زاعت کے شعبے کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ دیہی معیشت کی فارمنگ اور نان فارمنگ شعبوں میں حقیقی بڑھوتری کے ذریعے غربت کے خاتمے اور سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

زراعت کے شعبے کی بہتری اور مجموعی جی ڈی پی میں اضافے کے تناظر میں زراعت کو قومی معیشت کی لائف لائن بنانے کیلئے حکومت نے قومی زرعی ایمرجنسی پلان کا آغاز کیا اور اس مقصد کیلئے آئندہ پانچ سالوں میں 280 ارب روپے کی خطیر رقم کو خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ صنعتی شعبے میں ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ کیلئے حکومت برآمدات کے فروغ کیلئے کام کررہی ہے اس مقصد کیلئے برآمدی پیکیج، برآمدی شعبے کیلئے بجلی اور گیس کی مد میں زرتلافی اور طویل المیعاد قرضوں کی فراہمی کی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔

حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور اس میں دوبارہ اضافہ ایک اہم چیلنج کے طور پر سامنے آیا۔ اس کی بنیادی وجہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح مبادلہ کے تعین میں بار بار مداخلت کا عنصر تھا۔ پہلے مرحلے میں سٹیٹ بینک کو اس مداخلت سے روکا گیا۔ علاوہ ازیں حکومت نے دوست ممالک سے مختصر اور درمیانی مدت کے قرضوں کی صورت میں اضافی مالی تعاون کے حصول کی حکمت عملی وضع کی، سعودی عرب سے موخر ادائیگی پر تیل کی سہولت حاصل کی گئی، اسی طرح بینکوں کے ڈیپازٹس میں اضافہ کیا گیا۔

ان اقدامات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم بنانے اور بیرونی ادائیگیوں سے متعلق خطرات کو خاصی حد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔ کلی معیشت کی ایڈجسٹمنٹ کی پالیسیوں جیسے زری سخت گیری اور ایکسچینج ریٹ میں ردوبدل کے نتیجے میں حسابات جاریہ کے خسارے میں مالی سال 2018-19ء کے دوران 31.7 فیصد کی شرح سے کمی واقع ہوئی۔ مالی سال 2017-18ء میں حسابات جاریہ کا خسارہ 19.897 ارب ڈالر تھا۔

مالی سال 2018-19ء میں حسابات جاریہ کا خسارہ 13.587 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت کے پہلے برس برآمدات کا حجم 24.217 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ مالی سال 2018-19ء میں برآمدات کا حجم 24.76 ارب ڈالر رہا تھا۔ حکومت کی جانب سے برآمدی شعبے کو مراعات کے باوجود برآمدات میں توقع کے مطابق اضافہ نہ ہو سکا جس کی بنیادی وجہ عالمی سطح پر امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی مخاصمت کی وجہ سے عالمی تجارت میں سست روی ہو سکتی ہے۔

حکومت نے برآمدات میں اضافے کیلئے متعدد اقدامات کئے۔ برآمدی شعبے کے فروغ کیلئے ان شعبہ جات کو رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ برآمدی صنعت میں کم شرح سود پر قرضوں کا اجراء یقینی بنایا گیا۔ برآمدی صنعت سے متعلق درآمدات پر ڈیوٹی کی شرح کم کی گئی۔ وزیراعظم ایکسپورٹ پیکیج کی مدت میں تین سال کی توسیع کی گئی جبکہ چین کو 313 ڈیوٹی فری اشیاء کی برآمد کو یقینی بنایا گیا۔

حکومت کے پہلے سال درآمدات کا حجم 52.436 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو مالی سال 2017-18ء کے مقابلے میں کم ہے۔ مالی سال 2017-18ء میں درآمدات کا حجم 56.592 ارب ڈالر رہا۔ درآمدات میں تقریباً چار ارب ڈالر کی کمی حکومت کی جانب سے غیرضروری درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں اضافہ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اسی طرح اخراجات کے حوالے سے حکومت نے دانشمندانہ پالیسی مرتب کی ہے، حکومت سرکاری شعبوں میں چلنے والے اداروں کے خسارے میں قابو پانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔

حکومتی شعبے میں کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی میں بہتری کیلئے نئے قوانین مرتب کئے جا رہے ہیں۔ مسلسل خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو منافع بخش بنانے اور ان کی نجکاری کیلئے ہولڈنگ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے تحت بین الاقوامی معیار کے مطابق شفافیت پر مبنی اصولوں کو لاگو کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں سلامتی کی صورتحال بھی شامل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سلامتی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ اووروسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سالانہ سروے کے مطابق بیرونی سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان پر اعتماد میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ برٹش ایئر ویز نے 10 سال کے تعطل کے بعد پاکستان کیلئے دوبارہ پروازیں شروع کی ہیں۔ اب برٹش ایئر ویز کی ہفتہ میں برطانیہ سے اسلام آباد کیلئے پروازیں جاری ہیں۔

یہ پاکستان پر بین الاقوامی برادری کے اعتماد کا مظہر ہے اور اس سے ملک میں سیاحت کے فروغ میں بھی مدد ملے گی۔ حکومت پاکستان نے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے ایک فعال اور مؤثر پالیسی مرتب کی ہے اس مقصد کیلئے کئی اقدامات کئے گئے ہیں جن کا مقصد ملک کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش بنانا ہے۔ ان اقدامات میں نئی صنعتوں بالخصوص توانائی، بندرگاہوں، ہائی ویز، اور الیکٹرانکس کے شعبوں میں یونٹیں لگانے پر ٹیکس مراعات شامل ہیں۔

براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کیلئے حکومت نے خصوصی اقتصادی زونز بنائے ہیں جن میں رشکئی اقتصادی زون نوشہرہ، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد، ڈھابیجی ٹھٹھہ، اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری ماڈل انڈسٹریل زون، اسلام آباد اینڈ بوستان انڈسٹریل زون شامل ہیں جنہیں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پورٹ قاسم، گلگت بلتستان، میرپور اور مومن میں ماربل سٹی کا قیام زیر غور ہے۔

حکومت ان زونز میں تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے دوستانہ ماحول فراہم کرے گی۔ حکومت بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کے قیام میں گہری دلچسپی لے رہی ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے جو مراعات دی ہیں ان میں وفاقی، صوبائی اور میونسپل ڈیوٹی اور ٹیکسوں سے چھوٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ برآمدی پیداوار اور برآمدی صنعتوں کیلئے مشینری اور خام مال کی درآمد پر بھی کئی مراعات دی گئی ہیں۔

اس ضمن میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز اتھارٹی کے ذریعے ون ونڈو خدمات دی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں کاروبار میں آسانیوں کے حوالے سے بین الاقوامی انڈکس میں 11 پوائنٹ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اس سے یقینی طور پر بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔ حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بزنس، پراپرٹی رجسٹریشن اور کاروبار سے متعلق اصلاحات کیں جس کا عالمی بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھی ذکر کیا ہے۔

بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے سرمایہ کاری بورڈ دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اقدامات کر رہا ہے۔ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے حکومت سرمایہ کار اور تاجر دوست ماحول فراہم کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے بین الاقوامی سطح پر بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں روس کے ساتھ زیرسمندر گیس پائپ لائن کا سمجھوتہ کیا ہے۔

اسی طرح سعودی عرب نے گوادر ڈیپ سی پورٹ میں نئی آئل ریفائنری کی تعمیر میں دلچسپی ظاہر کی ہے ان منصوبوں کے نتیجے میں پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم کے دورہ امریکہ، ملائیشیا اور یو اے ای کے نتائج سامنے آ رہے ہیں، ان دوروں کے نتیجے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔

مالی سال 2019-20ء پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم سال ثابت ہو گا۔ اس سال پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گا جس میں انفراسٹرکچر کی بجائے اب تجارت اور صنعت پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ اس سے قومی معیشت میں ٹیکنالوجی اور ہنر کی منتقلی کا عمل برق رفتاری سے آگے بڑھے گا۔ آٹو موبائل ٹیلی کمیونیکیشن ، توانائی، الیکٹرانکس اور دیگر کلیدی شعبوں سے تعلق رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری میں اپنی دلچسپی ظاہر کر رہی ہے۔

یہ کمپنیاں پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی آبادی اور صارف مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا اس مقصد کیلئے نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس سکیم کے تحت 28 صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا جبکہ روزگار کے بے شمار مواقع سامنے آئیں گے۔

کامیاب جوان پروگرام بھی موجودہ حکومت کے پہلے سال کا تحفہ ہے۔ اس پروگرام کے تحت 100 ارب روپے مالیت کے قرضے آسان شرائط پر فراہم کئے جا رہے ہیں۔ حکومت زراعت اور صنعتی شعبہ میں روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے زرتلافیاں بھی دے رہی ہے۔ احساس کے نام سے سماجی تحفظ کا ایک جامع پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت معاشرے کے محروم اور پسماندہ طبقات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

احساس پروگرام میں بی آئی ایس پی، صحت سہولت پروگرام، کم قیمت مکانات، وسیلہ تعلیم پروگرام میں وسعت ، سونامی ٹری پروگرام اور کلین اینڈ گرین پاکستان شامل کیا گیا ہے۔ سٹیٹ بینک نے ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی قوتوں کی حرکیات پر مبنی تشکیل دینے کی پالیسی مرتب کی ہے جس کا مقصد وسط مدتی افراط زر کو قابو میں رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بچتوں کے فروغ میں بھی اضافہ ہو گا۔ حکومت نے دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں سے فنڈز کے حصول کے ذریعے حسابات جاریہ کے خسارے میں کمی کا اقدام اٹھایا۔ حکومت کو امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے اس ضمن میں حوصلہ افزاء ردعمل کی توقع ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات