مقبوضہ کشمیر میں محاصرے کے باعث لاکھو ں لوگ بدستور مشکلات کا شکار

کشمیری سیاستدانوںکو بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا انتباہ

ہفتہ 2 نومبر 2019 20:02

سری نگر ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 نومبر2019ء) مقبوضہ کشمیر میں سخت بھارتی فوجی محاصرے کے باعث وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں کے لاکھوں لوگ بدستور مشکلات کا شکار ہیں۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق دفعہ 144کے تحت عائد شدید پابندیوں اور انٹرنیٹ اور پری پیڈموبائل فون سروسز کی معطلی کے باعث آج 90ویں روز بھی وادی کشمیر اور جموںکے علاقوں میں معمولات زندگی بری طرح متاثر رہے۔

مقبوضہ علاقے کے حالات کو معمول پر لانے کی قابض انتظامیہ کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ لوگ بھارت کے حالیہ اقدامات کے خلاف اپنی ناراضگی کے اظہار کے لیے ہڑتال مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دکانیں اور کاروباری مراکز صرف صبح اور شام کے وقت کچھ گھنٹوں کیلئے کھلے رہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہے جبکہ دسویں اور بارھویں جماعت کے امتحانات دینے والوں کے سوا طلباء سکولوں اور کالجوں میں نہیں جا رہے۔

کم از کم تین فوٹوجرنلسٹوں نے کہا کہ بھارتی پولیس نے انہیں گزشتہ روز سرینگر کے ڈائون ٹائون علاقے میںبھارت مخالف مظاہروں کی کوریج کے دوران مارپیٹ کا نشانہ بنایا۔ ایک خاتون صحافی سمیت دیگر کئی فوٹو اور ویڈیوجرنلسٹوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے انکا پیچھا کیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ ایک صحافی نے کہا کہ پولیس اہلکاراس سے مسلسل یہ پوچھتے رہے کہ وہ مظاہروں کی تصاویر کیوں لے رہا ہے۔

دریں اثنا سرینگر میں چسپاں کیے جانے والے پوسٹروں میں کشمیری سیاستدانوں کو خبردار کیا گیاہے کہ اگر ان میں سے کسی نے کھلے عا م یا خفیہ طورپر بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ تعاون کیا تو اسے لوگوں کی طرف سے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پوسٹروں میں عام لوگوں سے بھی کہا گیا کہ وہ غداروں سے ہوشیار رہیں اور انہیں ایک ناقابل فراموش سبق سکھائیں۔

نامعلوم افراد نے ضلع شوپیاں کے علاقے Kumdlanمیں پٹرول بم پھینک کر ایک سرکاری سکول کی عمارت نذر آتش کر دی۔ بھارتی پولیس نے سوپور میں ایک نوجوان کو گرفتار کر لیا۔ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر نفیس ذکریا نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں منعقدہ ایک اجتماع سے خطاب میں کہا کہ عالمی برادری خاص طور پر سول سوسائٹی کے ارکان ،میڈیا اور پارلیمنٹیرینز نے مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر ہونے کے بھارتی دعوئوںکو رد کر دیا ہے ۔

اس موقع پر کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے ایک تصویری نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔ بھارت میں 1984میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں ہندوئوں کے ہاتھوں سکھوں کے وحشیانہ قتل عام کو 35برس مکمل ہونے پر جنیوا میں ہزاروں سکھوں اور کشمیریوںنے پنجاب اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم کے خلاف زبردست احتجاجی مارچ کیا۔

سکھوں اور کشمیریوں نے ایک دوسرے اور بھارت میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر جنیوا میں Palais Wilsonسے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے دفتر تک مارچ کیاجہا ں ریلی ایک بڑے اجتماع میں تبدیل ہوگئی۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’’سکھوں اور کشمیریوں کا قتل عام بندکرو اور بھارتی فوج کشمیر سے نکل جائے‘‘ کے نعرے درج تھے۔