سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس:صحافی مطیع اللہ جان کے اغواء کے معاملے پر اظہارتشویش ،آئندہ اجلاس میں صحافی کوطلب کرلیا

آئی جی اسلام آباد کو غیر جانبدارانہ تفتیش کرنے اور رپورٹ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت ّیہ واقعہ ہمارے لئے باعث شرمندگی ، دنیابھر میں اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں ،چیئرمین کمیٹی 3 وفاقی کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر اور کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر سیکرٹری داخلہ کے خلاف استحقاق کی تحریک ایوان میں پیش کرنے کا فیصلہ

بدھ 22 جولائی 2020 21:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 جولائی2020ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے صحافی مطیع اللہ جان کی اغوائیگی میں ملوث عناصر کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے آئی جی اسلام آباد کو معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرنے اور کمیٹی میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ،کمیٹی نے گھروں میں کام کرنے والی معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کے خاتمے کیلئے وفاقی کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر اور کمیٹی اجلاس میں عدم حاضری پر سیکرٹری داخلہ کے خلاف استحقاق کی تحریک ایوان میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹرمصطفی نواز کھوکھر کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا اجلاس کو اسلام آباد سے اغوا ہونے والے صحافی مطیع اللہ جان کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے ڈی آئی جی اپریشن نے بتایا کہ گزشتہ روزاسلام آباد کے سیکٹر جی 6میں صحافی مطیع اللہ جان کو کالی وردی میںملبوس افراد نے ان کی اہلیہ کے سکول کے سامنے سے اغوا کر لیا تھا اور رات گئے فتح جنگ کے قریب ان کو چھوڑ دیا گیا تھا انہوںنے کہاکہ ابھی تک اغوائیگی اور بازیابی کے حوالے سے مطیع اللہ جان نے پولیس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا ہے ہم نے ان کے بھائی سے اس حوالے سے رابطہ کیا تھا اور انہوںنے بتایاکہ عدالت میں پیشی کے بعد پولیس کو بیان ریکارڈ کروائیں گے اس موقع پر چیرمین کمیٹی نے کہاکہ اس واقعے سے عالمی سطح پر پاکستان کی بہت زیادہ بدنامی ہوئی ہے اور اس وقت پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں پر آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائے جاتے ہیں اور صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ مطیع اللہ کی اغوائیگی ایک سنگین واقع ہے اور اس کی مکمل تفتیش ہونی چاہیے انہوںنے کہاکہ اس حوالے سے پارلیمنٹرینز پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جنہوںنے ابھی تک زبردستی لاپتہ کرانے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی ہے اور بل وزارت قانون میں پڑا ہوا ہے کمیٹی کے رکن عثمان کاکڑ نے کہاکہ ملک میں پولیس حتی کہ وزیر اعظم ،وفاقی وزرا اور پارلیمنٹ تک بے اختیار ہے انہوںنے کہاکہ جن اداروںکی ذمہ داری ملک میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے دیگر اداروں سے تعاون کرنا ہوتا ہے وہ سیاست اور زبان بندی کیلئے استعمال ہورہے ہیں ان اداروں پر ملک کے اربوں کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں انہوںنے کہاکہ صحافی مطیع اللہ جان کی اغوائیگی کے قبل دیگر صحافیوں کے خلاف اقدامات کئے گئے اسلام اباد سے حاضر سروس ایس پی طاہر داوڑ کو اغوا کرکے شہید کردیا گیا تھامگر ابھی تک ان واقعات میںملوث عناصر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکا ہے انہوںنے کہاکہ اس ملک میں سچ بولنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اسلام آباد میں ااس طرح کے واقعات سب سے زیادہ ہورہے ہیںچیرمین کمیٹی نے کہاکہ یہ واقعہ ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہے دنیابھر میں اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں جس پر وفاقی وزیر شیری مزاری نے کہاکہ یہ واقعہ ہماری حکومت کیلئے بھی شرمناک ہے یہ نہ صرف بنیادی انسانی حقوق او آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی سطح پر کئے گئے معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے انہوںنے کہاکہ حکومت جلد ہی جرنلسٹ پروٹیکشن بل پیش کرے گی سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہاکہ اگر ملک میں پولیس کو مکمل اختیارات دئیے جائیں اور انہیں سیاسی مداخلت سے بھی پاک کردیا جائے تو 95فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ اسلام اباد میں نصب 1800سے زائد کیمرے کام کر ؂رہے ہیںتاہم جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیش آرہے ہیں اس حوالے سے حکومت کو جدید کیمرے نصب کرنے کیلئے فنڈز کی فراہمی کا کہا گیا ہے سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ صحافی مطیع اللہ جان کو جس ادارے نے بھی اغوا کیا ہو اس کو سز ضرور ملنی چاہیے اس ملک میں کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے انہوںنے انکشاف کیا کہ مشرف کے دور میںمجھے بھی اغوا کیا گیا تھااور میرے ساتھ اغوائیگی کے دوران جو سلوک کیا گیا وہ کسی وقت منظر عام پر لا?نگی انہوںنے کہاکہ مجھے اغوا کرکے واہگہ بارڈر کے قریب لے جایاگیا تھا اورووکلا سمیت پارٹی ورکرز کے شدید احتجاج کے بعد جب میں چھوڑ دیا گیا تو ایف آئی آر درج کرنے سے روکنے کیلئے بھی دوبارہ اغوا کیا گیا انہوںنے کہاکہ اگر حکومت یا وزارت جبری گمشدگی کے واقعات کا سدباب نہیں کر سکتی ہے تو مستعفی ہوجائے ایسے واقعات حکومت کے ماتھے پر بدنما داغ کی طرح ہوتے ہیں اس موقع پر چیرمین کمیٹی نے کہاکہ ہمیں پولیس کی جانب سے معاملے کی مکمل تفتیش اور عدالت میںچالان جمع کرانے کا انتظار کرنا چاہیے اور اس معاملے کو اس وقت تک کمیٹی میںاٹھائیں گے جب تک ملوث عناصر کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جاسکے کمیٹی نے معاملے پر صحافی مطیع اللہ جان کو بھی اگلے اجلاس میں بلانے کا فیصلہ کیا ہے کمیٹی نے بچوں کے گھروں میں کام کرنے کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے دو ہفتے قبل کئے جانے والے فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں تاخیر اور سیکرٹری داخلہ کے اجلاس میں نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کو استحقاق کمیٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس موقع پر وفاقی وزیر شیر ی مزاری نے کہاکہ وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکریٹری کمیٹی کے اجلاس میںغلط بیانی سے کام لے رہے ہیں وفاقی کابینہ نے تین ہفتے قبل اس بل کی منظوری دی تھی تاہم بیوروکریسی اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے ہماری وزارت کی جانب سے اس نوٹیفکیشن کے اجرا کے سلسلے میںکئی خطوط لکھے گئے ہیں تاہم عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے انہوںنے کہاکہ ہماری حکومت نے ایک اچھا کام کیا ہے اور اس پر بھی بیوروکریسی رکاوٹیں ڈال رہی ہیں اور مجھے بھی کہاگیا کہ اس کو ایجنڈی پر پیش کرنا آپ کی زمہ داری نہیں تھی کمیٹی نے سیکرٹری داخلہ کے خلاف استحقاق مجروح کرنے کی تحریک پیش کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اگلے اجلاس میں دوبارہ طلب کر لیا ہے کمیٹی نے لاہور گرائمر سکول میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے حوالے سے سکول انتظامیہ ،پنجاب پولیس اور محکمہ تعلیم پنجاب کے حکام کی بریفنگ کے بعد ملک بھر کے سکولوں کالجز اور یونیورسٹیز میں پیرنٹس ،ٹیچرز ایسوسی ایشنز کا قیام عمل میں لانے سمیت واقعات میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے اور ان کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

۔۔۔۔۔اعجاز خان