سینٹ استحقاق کمیٹی نے مشاہد اللہ خان پر پنجاب ہاؤس کے 27لاکھ کے واجبات ادا نہ کرنے کے الزام پر رپورٹ مسترد کر دی

معزز سینیٹر کے استحقاق کو مجروح کیا گیا ہے ، پنجاب حکومت کو خط لکھا جائیگا ،متعلقہ پنجاب ہاؤس کنٹرولر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے، کمیٹی

منگل 20 اکتوبر 2020 19:26

سینٹ استحقاق کمیٹی نے مشاہد اللہ خان پر پنجاب ہاؤس کے 27لاکھ کے واجبات ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اکتوبر2020ء) ایوان بالا کی قواعد و ضوابط اور استحقاق کمیٹی نے سینیٹر مشاہد اللہ خان پر پنجاب ہاؤس کی طرف سے 27لاکھ کے واجبات ادا نہ کرنے کے الزام پرفیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ معزز سینیٹر کے استحقاق کو مجروح کیا گیا ہے ، پنجاب حکومت کو خط لکھا جائیگا ،متعلقہ پنجاب ہاؤس کنٹرولر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ایوان بالا کی قواعد و ضوابط اور استحقاق کمیٹی کا اجلاس چیئر پرسن کمیٹی سینٹر عائشہ رضا فاروق کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی اجلاس میں سینیٹر مشاہد اللہ خان کے خلاف پنجاب ہاؤس میں رہنے کے حوالے سے 27لاکھ کے واجبات کے بے بنیاد الزامات، سینیٹر مصدق مسعود ملک کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخل ہونے سے روکنے کے حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر مسٹر دانش ذاکر اور سینیٹر سید محمد علی شاہ جاموٹ کی کسٹم ا نٹیلی جنس سکھر کے خلاف استحقاق کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر مشاہد اللہ خان پر پنجاب ہاؤس کی طرف سے 27لاکھ کے واجبات ادا نہ کرنے کے الزام کے حوالے سے استحقاق کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔چیئر پرسن کمیٹی سینٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ اس معاملے کا پہلے بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کمیٹی کو ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ فراہم کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب ہاؤس کی بکنگ کے حوالے سے زبانی احکامات بھی دیئے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ آف پاکستان کی طرف سے سینیٹر کو یہ کمرہ الاٹ کرایا گیا تھا جس کی ادائیگی سینیٹ سیکرٹریٹ نے کی ہے اس کے واچرز بھی موجود ہیں جب سینیٹر وزیر بنے تو سینیٹ نے کمرہ کینسل کرنے کا لیٹر بھی لکھا مگر پنجاب ہاؤس حکام نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ سلمان عباسی جو معزز سینیٹر کے مہمان تھے وہ 1351دنوں تک کمرے میں رہائش پذیر رہے اور ادائیگی بھی نہیں کی تو یہ ادارے کا کام تھا کہ جب سینیٹ آف پاکستان نے کینسل کرایا تو باقی ادائیگی سلمان عباسی سے کرائی جاتی نہ کہ معزز سینیٹر کے خلاف پریس کانفرنس کر کے بے بنیاد الزامات عائد کئے جاتے۔

سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ پنجاب ہاؤس کی رپورٹ پر افسوس ہوا ہے خود کو بچانے کی خاطر بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سلمان عباسی کو کمرہ خالی کرنے کے نوٹس بھی جاری کئے گئے اٴْن کی بجلی اور گیس کے کنکشن کاٹے گئے مگر صدر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں اثرو رسوخ کی وجہ سے سلمان عباسی نے بحال کروائے۔ سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ چیک اِن اور چیک آؤٹ کا ایک سسٹم ہوتا ہے جو لیگل ثبوت بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق بے شمار اور لوگ بھی ہیں جنہیں نواز ا گیا ہے اور ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا گیا مگر الزام دوسروں پر لگایا گیا۔ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے سینیٹر مشاہد اللہ کو شامل کیا گیاہے،سرکاری اداروں میں زبانی احکامات پر عمل نہیں ہوتا جب سے پنجاب ہاؤس بنا ہے اس کا مکمل ریکارڈ حاصل کیا جائے تا کہ دیکھا جا سکے کہ کس کس کو نوازا گیا ہے۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ جب سینیٹ میں الاٹمنٹ کینسل کرنے کا لیٹر لکھا تو کیوں نہیں کی گئی اس کو مزید کیوں جاری رکھا گیا،متعلقہ کنٹرولرپنجاب ہاؤس کنٹرول کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں کیا وہ صحیح ہیں یا غلط۔ پنجاب ہاؤس کمیٹی کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرے اور سلمان عباسی کو بھی دیکھا جائے کہ وہ کون ہے جس کے اتنے اثرورسوخ ہیں یہ کریمنل جرم ہے اس کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی بہت اہم چیز ہے ان کو مسترد نہیں کرنا چاہئے بلکہ معاملے کو واضح ہونا چاہئے۔ سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے کہا کہ کیا اعلیٰ اتھارٹی کو کوئی خطوط لکھے گئے تھے کہ سلمان عباسی کوئی ادائیگی نہیں کر رہا۔سینٹر پرویز رشید نے کہا کہ مشاہد اللہ خان کا استحقاق مجروح ہوا ہے اور ادارے کے پاس سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے اور کہا گیا ہے کہ زبانی کلامی کام کیا جاتا تھا جو کہ غلط بیانی ہے ان کا بیان خود ان کی تردید ہے۔

سینٹرسید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری حکومتی پروسیجر بنانے میں ناکام رہی۔ ایس او پی نہ ہونے سے مسائل ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب میں وزیر اعلیٰ سندھ تھا تو میرے نام پر بھی 2.5لاکھ کی بکنگ کرائی گئی تھی جو الیکشن کے وقت میں نے ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ اور اسمبلی میں کوڈیفیکیشن نہیں ہے اس کا بھی کام کرنا چاہئے۔ کمیٹی نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کثرت رائے سے فیصلہ کیا کہ معزز سینیٹر کے استحقاق کو مجروح کیا گیا ہے اور پنجاب حکومت کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا کہ متعلقہ پنجاب ہاؤس کنٹرولر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے تا کہ مستقبل میں اسطرح کے واقعات نہ ہو سکیں۔

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر مصدق مسعود ملک کی تحریک استحقاق کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر مصدق مسعود ملک نے کہا کہ پچھلے ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ جاتے وقت مجھے عدالت سے آدھا میل دور پولیس نے روک لیا۔ بارش بھی ہو رہی تھی بار بار اسسٹنٹ کمشنر کو پیغامات بھیجے کہ مجھے عدالت میں جانے کی اجازت دی جائے اپنا تعارف کروانے کے باوجود اسسٹنٹ کمشنر نے مجھے عدالت میں جانے نہیں دیا اور کہا کہ مجھے اوپر سے حکم ہے۔

میرے پوچھنے پر بھی نہیں بتایا گیا کہ اوپر کس کا حکم ہے وہاں پر ایسی زبان بولی گئی جو انتہائی ناشائستہ ہے۔ میں نے اے سی سے یہ بھی پوچھا کہ کس قانون کے تحت مجھے روکا گیا ہے اور دفعہ 144کے نفاذ کا پوچھا تو اے سی نے کہا کہ دفعہ 144 نافذنہیں کی گئی ہے مجھے اندر جانے والے افراد کی لسٹ تک نہیں دی گئی جب بات بڑھنے لگی تو پیغام آیا تو آپ اندر آ سکتے ہیں۔

مجھے لسٹ کیوں نہیں دیکھائی نہ ہی اتھارٹی کا بتایا گیا کہ مجھے کس کے حکم پر روکا گیا ہے میرے ساتھ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور دیگر بھی موجود تھے جو اے سی کو بھی بتاتے رہے کہ پارلیمنٹرین کے ساتھ اٴْن کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔جس پر چیئر پرسن عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ ایک چٹ کے ذریعے اتھارٹی سے اندر جانے کی اجازت حاصل کی جاسکتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کیا اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں سینٹر مصدق ملک کا نام تھا۔قانون نافذ کرنے کاایک طریقہ ہوتا ہے۔ اگر ایک سینیٹر کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا توعام آدمی کے ساتھ کیا ہوتاہوگا۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے کہا کہ میں اپنے اسٹنٹ کمشنر کی جانب سے معذرت کرتاہوں۔ معزز سینیٹر کی دل آزاری ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ تھی کہ کچھ افراد عدالتی کاروائی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے اور رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ لسٹ میں موجود افراد کے علاوہ دیگر کو عدالت میں داخل نہ ہونے دیاجائے،میرے اے سی کو شاید پتا نہیں تھا کہ اس دن دفعہ 144 نافذ تھی۔

اسسٹنٹ کمشنر نے بھی معزز سینیٹر کے سامنے اپنی غیر مشروت معذرت پیش کی اور کہا کہ مجھے دفعہ 144کا علم نہیں تھا اور جیمرز کی وجہ سے ڈی سی سے بات نہیں ہو سکی تھی۔ سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹرین اپنے آپ کو قانون سے ماورا کیوں سمجھتے ہیں،ہم مقدس گائے نہیں ہم پر بھی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے،ارکان پارلیمنٹ کو عوام کے لئے ایک مثال بننا چاہئے،میرا نہیں خیال کہ اس واقعے میں کسی کا استحقاق کا مجروح ہوا ہے۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ ہم ایک ایسی ریاست کے غلام ہیں جو خود مختار اور آزادہونے کی دعویدار ہے پارلیمنٹرین مقدس گائے نہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ مقدس گائے کون ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر جو ایک فورس کو لیڈ کر رہا تھا اٴْس کو معلوم نہ ہو کہ دفعہ 114 کے نفاذ نہیں کی گئی۔سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ چونکہ سینیٹر سید مظفر حسین شاہ چلے گئے ہیں میں اٴْن کے سامنے بات کرنا چاہتا ہوں کہ اس معاملے سے کسطرح استحقاق مجروح ہوا ہے بہتر یہی ہے کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس تک معاملہ موخر کیا جائے جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگر آئندہ اجلاس میں اسلام آباد انتظامیہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو طلب کر لیا جائے گا اور معاملے کو آئند ہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔

سینیٹر سید محمد علی شاہ جاموٹ کے کسٹم ا نٹیلی جنس سکھر کے خلاف استحقاق کے معا ملے کے حوالے سے چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ معزز سینیٹر کا ایجنڈا کمیٹی کے گزشتہ اجلاسوں میں شامل کیا گیا ہے اور قانون کے مطابق اگر کسی تحریک کے محرک مسلسل تین کمیٹی اجلاسوں میں شرکت نہ کریں تو معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے اور رپورٹ ہاؤس میں پیش کی جاتی ہے کمیٹی سینیٹر سید محمد علی شاہ جاموٹ کے معاملے کو ختم کرتی ہے اور ایوان میں رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سید مظفر حسین شاہ،ولید اقبال، ڈاکٹر آصف کرمانی، میاں رضا ربانی، مشاہد اللہ خان،پرویز رشید، ڈاکٹر سکندر مندرو، محمد علی سیف، منظور احمد کاکڑ اور مصدق مسعود ملک کے علاوہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، جوائنٹ سیکرٹری وزارت پارلیمانی امور، ڈی جی انٹیلی جنس کسٹم، کنٹرولر پنجاب ہاؤس، ڈائریکٹر کسٹم حیدرآباد، ڈی سی اسلام آباد، اے سی اسلام آباد اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔