پاکستان کا ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے امریکی لابنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کا انکشاف

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان جن مقاصد کے لیے واشنگٹن میں لابنگ پر خاصا پیسہ خرچ کرتا ہے آج تک اس کے مطلوبہ نتائج نہیں مل پائے. ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 23 اکتوبر 2020 12:54

پاکستان کا ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے امریکی لابنگ کمپنیوں ..
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 اکتوبر ۔2020ء) حکومت پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے دوبڑی امریکی لابنگ کمپنیوںلنڈن سٹریٹجیز اور ہالینڈ اینڈ نائٹ کی خدمات بھاری معاوضوں پر حاصل کرنے کا انکشاف ہوا ہے. امریکی لابنگ کمپنیوں کی خدمات کے معاہدوں نے وزارت خارجہ کی کارکردگی پر سوال کھڑے کردیئے ہیں کہ اگر معاملات لابنگ کمپنیوں کے ذریعے ہی چلائے جانے ہیں تو وزارت خارجہ اور مختلف ملکوں میں پاکستانی سفارت خانے کیا کررہے ہیں؟.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کی خاطر چند ہفتے پہلے ہی امریکی لابنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں‘واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کا ایک اہم ورچوئل اجلاس پیرس میں گذشتہ دو روز سے جاری ہے آج ایف اے ٹی ایف اپنے تازہ فیصلوں بشمول پاکستان کا اعلان کرے گا. ماہرین کا کہنا ہے کہ قوی امکان یہی ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں برقراررکھا جائے گا یہ بات پاکستانی حکومت کے بھی علم میں تھی کہ ایف اے ٹی ایف کے ذیلی ادارے ”ایشیاءپیسفک گروپ“کی سفارشات کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائے گا اگست میں مرتب کی جانے والی گروپ کی رپورٹ میں پاکستان کو جو پوائنٹس دیئے گئے تھے وہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ناکافی ہیں تاہم وہ بلیک لسٹ کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہیں لہذا ماہرین نے کئی ماہ پہلے اس رپورٹ کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھے جانے کا امکان ہے.

اس کے باوجود وزارت خارجہ نے بھاری معاوضوں پر امریکی لابنگ کمپنیوں کی خدمات کیوں حاصل کیں اس سوال کا جواب یقینی طور پر حکومت سے مانگا جائے گا‘ ایف اے ٹی ایف کے پاکستان کو دیے گئے 27 ایکشن پوائنٹس میں سے چھ پر عمل درآمد باقی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ شاید پاکستان اگلے موسم بہار میں گرے لسٹ سے نکل پائے گا تاہم موجودہ اجلاس میں اس کا کوئی امکان نہیں.

ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیوسٹن میں قائم ” لنڈن سٹریٹجیز“ کی ذیلی کمپنی” لنڈن گورنمنٹ سلوشنز“ کی خدمات اس سال اپریل میں حاصل کی گئی تھیں یہ فرم بین الاقوامی کلائنٹس جن میں ممالک بھی شامل ہیں کو حکومتی تعلقات اور کاروبار کے فروغ کے لیے تجزیے اور مشورے فراہم کرتی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے 40 ممالک کو خدمات فراہم کرتی ہے.

اسی فرم نے پاکستان کی 2001 سے لے کر 2004 تک نمائندگی کی تھی پاکستان کی وزارت خارجہ کے ساتھ معاہدے کے بعد ایک بیان میں اس کا کہنا تھا کہ اس کا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے گہرا پس منظر ہے. لنڈن کے صدر سٹیفن پین سرکاری امور اور پبلک ریلیشنز کا 25 سال کا تجربہ رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لنڈن ٹیم پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بنیادی دو طرفہ مسائل کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ذیلی اقدامات میں بھی مدد دے گی.

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک سنیئر اہلکار نے اس کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کی تصدیق کی تاہم ساتھ ہی کہا کہ اس فرم کی خدمات دوطرفہ امور کے لیے حاصل کی گئی ہیںانہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایف اے ٹی ایف کا نام لینے سے گریز کیا ان کا کہنا تھا کہ ایک اور فرم ہالینڈ اینڈ نائٹ کے ساتھ بھی گذشتہ برس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں خدمات کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے.

ہالینڈ اینڈ نائٹ کے سال 2005 میں ایک بیان کے مطابق وہ ماضی میں پاکستان سمیت کئی ممالک میں کرپشن کی تحقیقات کر چکی ہے تاہم سینیئر تجزیہ کار سراج اکبر سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں لابنگ پر اچھا خاصا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود بھی پاکستان کو اس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں ملیں گے جب تک پاکستان ایف اے ٹی اے کی جانب سے نشاندہی کیے گئے اقدامات نہ اٹھائے.

ادھر ”اردوپوائنٹ “کے ایڈیٹر میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان جن مقاصد کے لیے واشنگٹن میں لابنگ پر خاصا پیسہ خرچ کرتا ہے اور جو اس کے قومی مفادات کی فہرست میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں، ان معاملات پر پاکستان کو عموماً اس کی خواہشات کے مطابق نتائج نہیں ملتے اس کی ایک بڑی مثال کشمیر پر پاکستان کا موقف ہے، جس کے لیے واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے اور وہاں بھارتی جارحیت کے خلاف امریکی حکومتوں کی توجہ حاصل کرنے میں پاکستان خاصا پیسہ خرچ کرنے کے باجود بھی کامیاب نہیں رہا ہے.

انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں بھی پاکستان نے حال ہی ایک امریکی لابنگ فارم کی خدمات حاصل کی ہیں لیکن اس سے نہیں لگتا کہ ایف اے ٹی ایف جو فیصلہ کرنے والی ہے اس پر کوئی بڑا اثر پڑے گا . انہوں نے کہا کہ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ پاکستان کی طرف اوباما انتظامیہ کے مقابلے میں کم جارحانہ رہا ہے تاہم مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ کے معاملے میں پاکستان کی کوئی مدد کریں گے انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے.

تاہم ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آخرہماری وزارت خارجہ کیا کررہی ہے ہمارے سفارت خانے اپنا کام اس طرح ایمانداری اور محنت سے کیوں نہیں کرتے جس طرح بھارتی سفارت خانے کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہیں . میاں ندیم نے کہا کہ حکومت بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں سے پاکستانی سفارت خانوں اور سفارتی عملے کی کارکردگی کے لیے فیڈ بیک لے تو اسے کسی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی امریکا‘یورپ اور مڈل ایسٹ میں تقابلی جائزہ لیا جائے تو ایک طرف بھارتی سفارت خانے انتہائی متحرک رہتے ہیں تو دوسری جانب کلیدی عہدوں اور ان خطوں کے عوام کے ساتھ براہ راست رابطوں والے شعبہ جات میں بھارتی پروفیشنلزاثر انداز ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ امریکا کی مثال کو سامنے رکھیں تو امریکا کی شاید ہی کوئی یونیورسٹی ایسی ہوگی جہاں بھارتی نژاد اساتذہ نہیں اور پورے امریکا میں شاید ہی کوئی کاﺅنٹی ایسی ہوگی جس میں بھارتی ڈاکٹر‘نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف نہیں ملتا اسی طرح چھوٹے کاروباروں میں بھارتی پورے امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں ‘میڈیا انڈسٹری میں بھی پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بھارتیوں کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے اور وہ کلیدی عہدوں پر بھی ہیں.

انہوں نے کہا کہ عرب ملکوں کے میڈیا ہاﺅس بھارتیوں سے بھرے پڑے ہیں جو ان ملکوں میں عمومی تاثراور کسی حد تک پالیسی سازوں پر اثرانداز ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں عربی زبان کو نصاب سے ختم کردیا گیا ہے ‘بھارت نے عربی زبان سکھانے کے لیے ادارے قائم کیئے تاکہ عرب ملکوں میں جانے والے پروفیشنلزکو انگریزی کے ساتھ عربی زبان پر عبور حاصل ہو. انہوں نے کہا کہ ہمیں اب امور خارجہ کے بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا اور کیریئرڈپلومیٹس کو ہی سفیر مقرر کیا جائے سفیروں کے تقررکے لیے ذاتی پسندوناپسند اور ریٹائرڈ افراد کو سفیر مقررکرنے سے آج ہماری وزارت خارجہ مفلوج ہوکررہ گئی ہے ہمیں ہر شعبہ میں ریٹائرڈ افراد کی بھرتیوں سے گریزکرنا چاہیے اگر وہ اپنے تجربے سے ملک کو کوئی فائدہ دینا چاہتے ہیں تو وہ رضاکارانہ طور پر مشاورتی کونسلوں میں خدمات پیش کریں ورنہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سکون کے ساتھ ریٹائرڈ زندگی گزاریں .

انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ اعلی افسران سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی رضاکارنہ خدمات فراہم کرسکتے ہیں جہاں وہ طالب علموں کو اپنے تجربات سے مستفید کریں ہمیں اس سلسلہ میں ایک ٹھوس پالیسی بنانی ہوگی. انہوں نے کہا کہ فوری طور دیگر شعبوں میں نہیں تو وزارت خارجہ کو تو ریٹائرڈ لوگوں کی بجائے کیئریرڈپلومیٹس کے حوالے کردینا چاہیے اگر آپ کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ‘جنرل یا جج کو سفیر مقررکرتے ہیں تو کیئریرڈپلومیٹس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ہمارے ہاں اہم ترین ملکوں میں سفارشی سفیر ہوتے ہیں تو آپ دوسرے ملکوں کے گھاگ کیئریرڈپلومیٹس کا مقابلہ کیسے کرپائیں گے؟ .

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سفیروں اور سفارت کاروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے بیرون ممالک مقیم تارکین وطن سے فیڈ بیک لیں اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سفارت خانوں کی کارکردگی کی جائزہ رپورٹس بنوائیں تو ایسے حقائق سامنے آئیں گے جو ملک اور ملکی معاشیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں.