میری بھارتی وزیر خارجہ سے کوئی ملاقات طے نہیں ،شا ہ محمود قریشی

بھارت اور پاکستان کی گفتگو جب بھی ہو گی اس کیلئے ہمیں دو طرفہ سوچنا ہوگا،بھارت سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ پرامن رہنے کے حامی ہیں،پاکستان کبھی مذاکرات سے نہیں بھاگا،کشمیر کے معاملے پر ہم صرف نظر نہیں کر سکتے،اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات پر نظر ثانی کرے تو ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں،خطے میں امن کے خواہاں ہیں ،امن آئے گا تو معیشت بہتر ہونا شروع ہو گی ہمارے لیے اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے،تمام فریقین مل کر آپس میں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں،قیام امن کیلئے پاکستان ہمیشہ مثبت مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا،بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں ، سیاسی جماعتوں سے مشاورت سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں،پہلے مرحلے میں طبی عملے کو ویکسینیشن کے ذریعے محفوظ بنا رہے ہیں ،اس کے بعد مرحلہ وار باقی لوگوں کو بھی لگائی جائے گی، وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس

اتوار 18 اپریل 2021 20:00

دبئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اپریل2021ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ میری بھارتی وزیر خارجہ سے کوئی ملاقات طے نہیں ، بھارت اور پاکستان کی گفتگو جب بھی ہو گی اس کیلئے ہمیں دو طرفہ سوچنا ہوگا،بھارت سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ پرامن رہنے کے حامی ہیں،پاکستان کبھی مذاکرات سے نہیں بھاگا،کشمیر کے معاملے پر ہم صرف نظر نہیں کر سکتے،اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات پر نظر ثانی کرے تو ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں،خطے میں امن کے خواہاں ہیں ،امن آئے گا تو معیشت بہتر ہونا شروع ہو گی ہمارے لیے اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے،تمام فریقین مل کر آپس میں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں،قیام امن کیلئے پاکستان ہمیشہ مثبت مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا،بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں ، سیاسی جماعتوں سے مشاورت سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں،پہلے مرحلے میں طبی عملے کو ویکسینیشن کے ذریعے محفوظ بنا رہے ہیں ،اس کے بعد مرحلہ وار باقی لوگوں کو بھی لگائی جائے گی ۔

(جاری ہے)

اتوار کو یہاںوزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستانی قونصل خانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ (آج) پیر کو میری متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہو گی،ہم دونوں ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ سفارتی برادرانہ تعلقات کے 50 سال مکمل ہونے پر مختلف پروگرام ترتیب دیں۔ انہوںنے کہاکہ میں وزیر اعظم عمران خان صاحب سے گذارش کروں گا کہ وہ بھی یہاں تشریف لائیںاور ہم شارجہ میں ایک بہت بڑے پروگرام کا انعقاد کریں اور اس پروگرام میں یو اے ای میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے مثبت کردار کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔

انہوںنے کہاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں،ہم دوسری جماعتوں کے ساتھ مشاورت میں ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بیرون ملک مقیم پاکستانی، پاکستان کی سیاست اور پالیسی سازی میں شامل ہو سکے۔ انہوںنے کہاکہ میں میڈیا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر یہاں تشریف لائے۔ انہوںنے کہاکہ میری ہندوستان کے وزیر خارجہ امور جے شنکر سے کوئی ملاقات طے نہیں ،ہندوستان اور پاکستان کی گفتگو جب بھی ہو گی اس کیلئے ہمیں دو طرفہ سوچنا ہوگا۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کبھی مذاکرات سے نہیں بھاگا،ہم اپنے تمام ہمسایوں بشمول ہندوستان کے ساتھ پرامن رہنے کے حامی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اگر ہندوستان 5 اگست کے اقدامات پر نظر ثانی کرتا ہے تو ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ انہوںنے واضح کیا کہ کشمیر کے معاملے پر ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔ انہوںنے کہاکہ افغان وزیر خارجہ کا مجھ سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا،افغان امن عمل اہم مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے۔

انہوںنے کہاکہ بہت سے ممالک افغانستان میں قیام امن کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ ترکی نے بھی اس حوالے سے ایک کانفرنس رکھی ہے،ہماری خواہش ہو گی کہ طالبان اس کانفرنس میں تشریف لائیں ۔ انہوںنے کہاکہ افغان قضیے سے وابستہ تمام فریقین مل کر آپس میں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں،ہمارا کردار ایک سہولت کار کا تھا۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ کے انخلاء کے حوالے سے اعلان کے بعد کی صورتحال پر بھی میری افغان وزیر خارجہ سے گفتگو ہوئی،ایران کے وزیر خارجہ چار مرتبہ پاکستان تشریف لا چکے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ ایران ہمارا اہم برادر ملک ہے ،ایران، افغانستان کا ہمسایہ بھی ہے اور ان کی افغان امن عمل میں دلچسپی بھی ہے ان کے خیالات سے استفادے کا موقع میسر آئے گا ۔ انہوںنے کہاکہ قیام امن کیلئے پاکستان ہمیشہ مثبت مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا ۔ انہوںنے کہاکہ جی سی سی کے مابین تنازعات کے حل کے حوالے سے مثبت کوششیں ہوئیں اور صورت حال بہتری کی جانب گامزن دکھائی دیتی ہے ،میں نے گذشتہ برس دسمبر میں اپنے دورے کے دوران اماراتی وزیر خارجہ کے ساتھ پاکستانیوں کو درپیش ویزہ مشکلات کو اٹھایا ۔

انہوںنے کہاکہ جس کے بعد فیملی ویزہ کے حصول میں بہتری آئی ،میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی باضابطہ بیک چینل رابطہ نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ بیک چینل کی ضرورت کیا ہے کشمیر، سرکریک، اور پانی کے مسئلے پر آئیں اور میز پر بیٹھ کر بات کریں لیکن میز پر بیٹھنے سے قبل کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ تو کریں ۔

انہوںنے کہاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ وہ اپنی محنت کی کمائی کا پیسہ پاکستان بھجواتے ہیں اور ملکی معیشت کو مستحکم بناتے ہیں ،میں نے وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد تمام سفارت خانوں کو پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ اچھے رویے کی ہدایات دیں ۔انہوںنے کہاکہ کرونا وبا کے دوران ہمارے دبئی میں قونصل خانے نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن اگر کہیں ہمیں کوئی شکایت ملی تو ہم اس کی تحقیق کریں گے اور تحقیقات کے بعد اگر کوئی ذمہ دار پائے گئے تو انہیں وہاں رہنے کا حق نہیں پہنچتا ۔

انہوںنے کہاکہ اللہ کا کرم ہے کہ گذشتہ ڈھائی سالوں میں ہندوستان کی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں ۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم عمران خان امریکہ تشریف لے گئے تو ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا،نیویارک میں جب وزیر اعظم تشریف لے گئے تو ہزاروں لوگ ان کے استقبال کیلئے اسمبلی کے باہر جمع تھے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یورپی یونین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوئے ہیں ،اسلامی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری آئی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں ،امن آئے گا تو معیشت بہتر ہونا شروع ہو گی ہمارے لیے اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے ۔ انہوںنے کہاکہ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری سے وسط ایشیائی ممالک کے لیے نیے امکانات پیدا ہو رہے ہیں ۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ کرونا وبا نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے ،بہت سے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ہم نے لوگوں کی جانیں اور روزگار بچانے کیلئے محدود وسائل کے اندر بہتر حکمت عملی اپنائی ۔

انہوںنے کہاکہ ہم پہلے مرحلے میں طبی عملے کو ویکسینیشن کے ذریعے محفوظ بنا رہے ہیں ،اس کے بعد مرحلہ وار باقی لوگوں کو بھی لگائی جائے گی ۔ انہوںنے کہاکہ ہم چین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے سائنوفام ویکسین تحفتاً ہمیں بھجوائی،ہم نے صاحب ثروت لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ پرائیویٹ طور پر قیمتاً ویکسین لگوا سکتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان، گذشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کی خدمت اپنے وسائل سے کر رہا ہے ،افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری نے ان سے صرف نظر کیا ہوا ہے