اپڈا پاکستان کی واٹر، فوڈ اور انرجی سکیورٹی کے لئے پرعزم ہے

ان خیالات کا اظہار چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین(ریٹائرڈ) نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں اپنے خطاب کے دوران کیا

جمعہ 15 اکتوبر 2021 17:26

اپڈا پاکستان کی واٹر، فوڈ اور انرجی سکیورٹی کے لئے پرعزم ہے
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 اکتوبر2021ء) واپڈا پاکستان کی واٹر، فوڈ اور انرجی سکیورٹی کے لئے پرعزم ہے۔ واپڈا اس وقت پانی اور پن بجلی کے شعبوں میں 10منصوبے تعمیر کر رہا ہے جو 2023ء سے 2029ء تک مرحلہ وار مکمل ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین(ریٹائرڈ) نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں اپنے خطاب کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ واپڈا ایک متحرک قومی ادارے کی حیثیت سے پانی کے وسائل کو بروئے کار لا کر پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ واپڈا کے زیرتعمیر 10منصوبوں میں 5ڈیم، 3ہائیڈروپاور پراجیکٹ، ایک کینال اور ایک واٹر سپلائی سکیم شامل ہیں۔ ان منصوبوں میں دیامیربھاشا ڈیم، مہمند ڈیم، داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ، نائے گاج ڈیم، سندھ بیراج، کچھی کینال کی توسیع اور کے فور قابل ذکر ہیں۔

(جاری ہے)

ان 10منصوبوں کی تکمیل سے 11عشائیہ 7ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہو گا جس کی بدولت ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 13ملین ایکڑ فٹ سے بڑھ کر 24ملین ایکڑ فٹ ہو جائے گی جس سے 16لاکھ ایکڑ مزید اراضی زیرکاشت آئے گی۔ اس کے علاوہ پشاور اور کراچی کو 950ملین گیلن پانی روزانہ کی بنیاد پر پینے کے لئے میسر آئے گا۔ ان منصوبوں کے مکمل ہونے سے پن بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 9ہزار میگاواٹ اضافہ ہو گا اور پن بجلی کی موجودہ پیداواری صلاحیت دوگنا ہو کر 18ہزار میگاواٹ عبور کر جائے گی۔

چیئرمین واپڈا نے مزید بتایا کہ ان منصوبوں کی تعمیر کے دوران 35ہزار ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ ملک میں پانی کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے کہا کہ پاکستان میں 1951ء میں پانی کی فی کس دستیابی 5ہزار 650مکعب میٹر سالانہ تھی جو کم ہو کر اب 908مکعب میٹر سالانہ کی تشویشناک سطح تک آ چکی ہے اور پاکستان پانی کی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔

پاکستان اپنے دریاؤں میں آنے والے سالانہ پانی کا صرف 10فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے جبکہ دنیا میں پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط صلاحیت 40فیصد ہے۔ بدقسمتی سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی بجائے ہمارے ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ایک چوتھائی کم ہو چکی ہے۔ 1976ء میں ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 16اعشائیہ 26ملین ایکڑ فٹ تھی جو کم ہو کر اب 13اعشائیہ 68ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔

پانی کی یہ مقدار ہمارے ملک کی صرف 30دن کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت اپنے ذخیرہ کئے گئے پانی سے 170دن کی ضروریات، مصر700دن اور امریکہ 900دن کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ ہمیں پانی کی کیری اوور صلاحیت کو 30دن سے بڑھا کر 120دن پر لانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت دور کرنے کے لئے ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ واٹر کنزرویشن اور واٹرمینجمنٹ کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر اقرار احمدخاں نے اپنے خیرمقدمی کلمات میں چیئرمین واپڈا کو پاکستان کی زرعی ترقی میں یونیورسٹی کی خدمات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تغیرات اور پانی کے بے جا استعمال کی وجہ سے پاکستان کا شمار دنیا کے پانی کی کمی کے شکار ممالک میں ہوتا ہے جس سے نبردآزما ہونے کے لئے پانی کے عقلمندانہ استعمال کو یقینی بنانے اور ذخیرہ کرنے کی استعدادکار بڑھانے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ سولر پمپس کے بے دریغ استعمال سے زیرزمین پانی کی سطح دن بدن نیچے جا رہی ہے جس سے نہ صرف گھریلو صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زراعت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے سالوں میں ملکی سطح پر بدترین پانی کا بحران پیدا ہو گا۔

پرنسپل آفیسر شعبہ تعلقات عامہ و مطبوعات پروفیسر ڈاکٹر محمد جلال عارف نے کہا کہ برصغیر میں پہلی زرعی دانش گاہ کے منصب پر فائز جامعہ زرعیہ کو قومی و بین الاقوامی سطح پر سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ زرعی یونیورسٹی اور واپڈا مشترکہ تحقیقی اور عوامی سطح پر شعور بیدار کرنے کے حوالے سے کاوشیں بروئے کار لائیں  تو اس کے ثمرات سمیٹتے ہوئے آبی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے زرعی یونیورسٹی میں قائم سنٹرفار ایڈوانسٹڈ سٹڈیز کو زراعت کا تاج محل کہا جاتا ہے جس کی بدولت اعلیٰ تحقیق، فوڈ سکیورٹی، کاشتکاروں کی خوشحالی اور پیداواریت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس موقع پر ترقی پسند کاشتکار آفاق ٹوانہ نے بھی خطاب کیا۔ چیئرمین واپڈا نے یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں ورلڈ مینگو انسائیکلوپیڈیا بھی مشاہدہ کیا۔ انہوں نے فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لیبارٹریز اور انجینئرنگ ورکشاپس کا بھی دورہ کیا۔