سرکاری بینکوں نے 30 سال میں58 ارب کے قرضے معاف کیئے

مسلم لیگ(ن)کے 3 ادوارکے دوران مجموعی طور پر 15 ارب 82 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ،پیپلز پارٹی کے 3 ادوارکے دوران 14 ارب 12 کروڑ 90 لاکھ کے لگ بھگ ،جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں21ارب روپے اورتحریک انصاف کی4سالہ دورمیں 6ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے، رپورٹ

جمعہ 5 اگست 2022 21:25

�راچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اگست2022ء) پاکستان تحریک انصاف کے 4 سالہ دور حکومت (2018تا 2021)کے دوران سرکاری بینکوں کی جانب سے مراعات یافتہ طبقے، اداروں اور سیاسی شخصیات پر واجب الادا اربوں روپے کے قرض معاف کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔نجی ٹی وی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پبلک سیکٹر بینکوں نے حکمران سیاسی جماعتوں(پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پی پی پی)اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے 10 سالہ دور حکومت میں کیسے، کب، کہاں اور کیوں قرضے معاف کیے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق 150 سے زائد بڑے قرض دہندگان یا نادہندگان(جن میں سیاستدان، ریٹائرڈ فوجی افسران، تاجر، صنعت کار اور زمینداروں شامل ہیں) نے 40 کروڑ یا اس سے زیادہ کا قرض معاف کرایا۔ریکارڈ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ماتحت بینکوں نے گزشتہ 32 برسوں کے دوران مجموعی طور پر 58 ارب روپے کے قرض معاف کرائے۔

(جاری ہے)

جن سرکاری بینکوں نے قرض معاف کئے ان میں نیشنل بینک آف پاکستان ، زرعی ترقیاتی بینک، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر (BoK) شامل ہیں۔

دستاویزات کے مطابق مسلم لیگ(ن)کے 3 ادوار (93-1991، 99-1997 اور 18-2013) کے دوران مجموعی طور پر 15 ارب 82 کروڑ 30 لاکھ سے زائد کے قرض معاف کئے گئے۔اسی طرح پیپلز پارٹی کے 3 ادوار (90-1988، 96-1993 اور 13-2008) کے دوران 14 ارب 12 کروڑ 90 لاکھ کے لگ بھگ قرض معاف کیا گیا۔سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت (2008-1999) کے دوران ملک کے سرکاری بینکوں نے مجموعی طور پر سیکڑوں افراد اور اداروں پر واجب الادا 21 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے۔

مختلف سرکاری مالیاتی اداروں سے حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق 3 ہزار 6 مقروض افراد اور اداروں میں سے لگ بھگ 500 نے مجموعی طور پر 30 ارب روپے کے قرض معاف کرانے کے لئے نیشنل بینک آف پاکستان، زرعی ترقیاتی بینک، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے 4 سالہ دور حکومت (2018 تا 2021)کے دوران سرکاری بینکوں نے 6 ارب روپے کا ریکارڈ قرض معاف کیا۔

رپورٹ کے مطابق بینک آف پنجاب نے اپنے قیام سے اب تک 17 برسوں میں 852 افراد اور اداروں پر واجب الادا 7 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد کے قرض معاف کئے۔پاکستان تحریک انصاف کے برسراقتدار میں آنے سے قبل بینک آف پنجاب نے 2005 سے 2017 کے درمیان 186 افراد اور کمپنیوں پر واجب الادا 2 ارب 70 کروڑ روپے معاف کئے تھے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے 4 سالہ دور حکومت میں بینک آف پنجاب نے 666 افراد اور اداروں پر واجب الادا 4 ارب 50 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا۔

بینک آف پنجاب نے 2018 کے دوران 310 افراد اور کمپنیوں پر واجب الادا ایک ارب 70 کروڑ روپے کے قرض معاف کئے۔2019 میں بینک آف پنجاب نے 68 افراد پر 36 کروڑ 40 لاکھ ، 2020 میں 119 افراد پر 82 کروڑ 50 لاکھ جب کہ 2021 میں 169 افراد اور کمپنیوں کے ذمہ ایک ارب 57 کروڑ 10 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا۔سرکاری دستاویزات کے مطابق مسلم لیگ(ن)کے دور اقتدار (2013 تا 2018) کے دوران بینک آف پنجاب نے مجموعی طور پر 95 افراد اور اداروں کے ذمہ ایک ارب 60 کروڑ روپے کے قرضے معاف کئے گئے۔

2014 میں بینک آف پنجاب نے 10 قرضداروں پر واجب الادا 7 کروڑ 70 لاکھ روپے، 2015 میں 22 افراد و کمپنیوں پر واجب الادا 40 کروڑ 30 لاکھ سے زائد، 2016 میں 37 کھاتیداروں کے ایک ارب روپے اور 2017 میں 26 افراد اور کمپنیوں کے ذمہ 12 کروڑ 60 لاکھ روپے معاف کئے گئے۔بینک آف پنجاب نے 2008 سے 2013 کے دوران مجموعی طور پر 69 کروڑ 20 لاکھ روپے معاف کئے، یہ قرض 95 افراد اور کمپنیوں پر واجب الادا تھا۔

بینک آف پنجاب کے مطابق 2008 میں 9 افراد کے ذمے ڈیڑھ کروڑ روپے معاف کئے گئے، 2009 میں 7 مقروض کھاتیداروں کے 80 لاکھ ، 2010 میں 4 افراد و کمپنیوں کے ذمہ 60 لاکھ، 2011 میں 3 مقروضوں کے ساڑھے 8 کروڑ روپے، 2012 میں 12 افراد و کمپنیوں کر واجب الادا 48 کروڑ 90 لاکھ روپے جب کہ 2013 میں 15 قرض داروں کے 8 کروڑ 90 لاکھ روپے معاف کئے گئے۔بینک آف پنجاب نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں 42 کھاتیداروں کے ذمہ 38 کروڑ 90 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا۔

2005 میں 12 قرض داروں کے 2 کروڑ 80 لاکھ روپے، 2006 میں 10 قرض داروں کے 3 کروڑ اور 2007 میں 19 مقروض اداروں اور افراد کے ذمہ 33 کروڑ 10 لاکھ روپے معاف کئے گئے۔نیشنل بینک نی1990 سے 2021 کے دوران مجموعی طور پر 1058 قرض داروں کے ذمہ 36 ارب 50 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)اور پرویز مشرف کے دور اقتدار (1990 تا 2021) میں 888 افراد اور کمپنیوں کے ذمہ 35 ارب 70 کروڑ روپے معاف کئے گئے جب کہ تحریک انصاف کئے 4 سالہ دور میں 179 انفرادی کھاتے داروں پر واجب الادا 78 کروڑ 502 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا گیا۔

تحریک انصاف کی حکومت کے دوران نیشنل بینک نے 179 افراد اور کمپنیوں پر واجب الادا 75 کروڑ 50 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا۔اعداد و شمار کے مطابق نیشنل بینک نی2018 میں 18 قرض داروں پر واجب الادا 20 کروڑ 30 لاکھ روپے، 2019 میں 21 مقروض افراد اور اداروں کے ذمہ 3 کروڑ 10 لاکھ روپے، 2020 میں 70 کے قریب قرض داروں کے 5 کروڑ 80 لاکھ روپے اور 2021 میں 70 افراد اور کمپنیوں پر 49 کروڑ 30 لاکھ روپے قرض معاف کیا۔

مسلم لیگ(ن) کے تیسرے دور حکومت (2018-2013 ) کے درمیان این بی پی نے 2 ارب روپے کے قرضے معاف کئے۔2017 میں صرف ایک سال کے دوران 10 مقروض افراد اور اداروں پر واجب الادا ایک ارب 30 کروڑ روپے معاف کئے گئے، 2016 میں 12 قرض داروں کے ذمہ 35 کروڑ 20 لاکھ روپے ، 2015 میں 8 کروڑ 90 لاکھ روپے اور 2014 میں 30 کروڑ 30 لاکھ روپے معاف کئے گئے۔2008 سے 2013 کے دوران ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کا اقتدار رہا، اس دوران نیشنل بینک نے مجموعی طور پر 4 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد کا قرض معاف کیا۔

دستاویزات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کے دوران حکومت میں صرف 2005 سے 2007 کے دوران 12 ارب روپے سے زئاد کے قرضے معاف کئے گئے جو کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن)اور تحریک انصاف کے ادوار کے مقابلے میں مجموعطی طور پر بھی زیادہ ہے۔2005 میں 166 قرض داروں کے ذمے 4 ارب 80 کروڑ روپے، 2006 میں 103 مقروض افراد اور کمپنیوں پر واجب الادا 2 ارب 90 کروڑ روپے جب کہ 2007 میں 123 قرض داروں کا 4 ارب 30 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے 4 سالہ دور حکومت میں زرعی ترقیاتی بینک نے 138 اشخاص اور کمپنیوں پر چڑھا 35 کروڑ 90 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا ہے۔2018 میں زرعی ترقیاتی بینک نے 29 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا اس سے 50 قرض داروں کو فائدہ ہوا، 2019 میں 88 مقروض اداروں اور انفرادی قرض داروں کے ذمہ 6 کروڑ 50 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا گیا۔ 2020 میں 3 قرض داروں کے 20 لاکھ اور 2021 میں بھی 2 قرض داروں کے 20 لاکھ روپے معاف کئے گئے۔

دستاویزات کے مطابق مسلم لیگ (ن)کے دور حکومت (2018-2013) میں زرعی ترقیاتی بینک نے 563 قرض داروں کے ذمہ 83 کروڑ 50 لاکھ روپے معاف کئے۔2013 میں 47 قرض داروں کے 12 کروڑ 80 لاکھ روپے، 2014 میں 51 مقروض اداروں اور افراد کے 4 کروڑ 80 لاکھ روپے، 2015 میں 252 افراد اور کمپنیوں پر واجب الادا 19 کروڑ 60 لاکھ روپے، 2016 میں 124 قرض داروں کے 32 کروڑ 30 لاکھ روپے اور 2017 میں 89 مقروض افراد اور کمپنیوں پر واجب الادا 14 کروڑ روپے معافد کئے گئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2009 سے 2012 کے دوران زرعی ترقیاتی بینک نے 226 قرض داروں کے ذمہ ایک ارب روپے معاف کئے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق 2012 میں زرعی ترقیاتی بینک نے 71 مقروض افراد اور اداروں پر واجب الادا 21 کروڑ 30 لاکھ روپے، 2011 میں 87 قرض داروں کے 7 کروڑ 30 لاکھ روپے ، 2010 میں 11 قرض داروں پر واجب الادا ایک کروڑ 10 لاکھ روپے اور 2009 میں 55 مقروض افراد اور اداروں کا 73 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق بینک آف خیبر نے گزشتہ 12 برسوں کے دوران مجموعی طور پر 95 قرض داروں کے زمہ ایک ارب 10 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا۔بینک آف خیبر نے تحریک انصاف کے 4 سالہ دور حکومت میں مجموعی طور پر 21 افراد اور کمپنیوں کے ذمے 27 کروڑ 20 لاکھ افراد کا قرض معاف کیا۔2021 میں بینک آف خیبر نے 5 کروڑ 90 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا، اس سے 59 قرض دار مستفید ہوئے، 2020 میں 5 مقروض اداروں اور افراد کے ذمہ 7 کروڑ روپے، 2019 میں 2 مقروضوں کے ذمہ ایک کروڑ روپے اور 2018 میں 4 افراد اور کمپنیوں کے ذمہ واجب الادا 13 کروڑ 30 لاکھ روپے معاف کئے گئے۔

2013 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں پہلی مرتبہ تحریک انصاف برسر اقتدار تھی۔ 2013 سے 2017 کے دوران بینک آف خیبر نے مجموعی طور پر 61 کروڑ 50 لاکھ روپے کے قرض معاف کرکے 50 افراد اور کمپنیوں کو فائدہ دیا۔2013 میں بینک آف خیبر نے 12 قرض داروں کے ذمہ 21 کروڑ 90 لاکھ روپے معاف کردیئے، 2014 میں 7 کروڑ 70 لاکھ روپے کا قرض معاف کرکے 11 قرض داروں اور 2015 میں 16 کروڑ 10 لاکھ روپے معاف کرکے 11 قرض داروں کو فائدہ دیا گیا۔

بینک آف خیبر نے 2016 میں 40 لاکھ جب کہ 2017 میں 15 کروڑ 40 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا جس سے بالترتیب 7 اور 9 قرض دار مستفید ہوئے۔2008 کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے مل کر حکومت بنائی۔ اس دوران بینک آف خیبر نے 24 مقروض افراد اور اداروں کے ذمے 14 کروڑ 70 لاکھ روپے کی واجب الادا رقم معاف کی۔دستاویزات کے مطابق 2008 کے دوران بینک آف خیبر نے 40 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا جس سے 3 قرض داروں کا فائدہ ہوا۔

2009 میں ایک قرض دار کے ذمی ایک کروڑ 40 لاکھ روپے معاف کئے گئے۔ 2010 میں 8 قرض داروں پر ایک کروڑ 80 لاکھ روپے واجب الادا رقم معاف کی گئی۔ 2011 میں بینک 3 مقروض افراد اور اداروں کے ذمہ 11 کروڑ 10 لاکھ روپے کے قرض سے دستبردار ہوگیا اسی طرح 2012 میں 8 کروڑ 70 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا گیا جس سے 9 قرض داروں کا فائدہ ہوا۔1999 سے اب تک قرض معاف کرانے والے اہم افراد میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر بلور مرحوم ، ہارون بلور مرحوم اور ان کے اہل خانہ کی ملکیتی کمپنی بلور انٹر نیشنل لمیٹڈ (Bilour International Ltd) کے ذمہ ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا گیا۔

نیشنل بینک نے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر واجب الادا ایک ارب 20 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر مرحوم کے اہل خانہ آمنہ تاثیر، شہریار تاثیر اور شیربانو تاثیر کی کمپنی شکوہ ٹیکستائل کے ملز کے ذمہ 3 کروڑ 90 لاکھ اور پیس برکہ پراپرٹیز کے ذمہ ساڑھے 4 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا گیا۔2006 میں سراج اسٹیلز لمیٹڈ کے ذمہ ڈیڑھ ارب روپے کا قرض معاف کیا گیا۔

2008 میں پاکستان نیشنل ٹیکسٹائل ملز کے ذمہ ایک ارب 20 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا گیا۔2002 میں نیشنل بینک نے معروف صنعتکار آصف سیگل اور عارف سیگل کی محب ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ کا ایک ارب 20 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا تھا۔نیشنل بینک نے 2004 میں سابق چیئرمین پاکستان اسٹیل ملز لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کی کمپنی کورل کیسٹ لیمٹڈ کا 90 کروڑ روپے سے زائد کا قرض معاف کیا تھا۔

2008 میں فاروق مانیکا اور گوہر مانیکا کی کمپنی پاک پتن ڈائریز لمیٹڈ کا 56 کروڑ 80 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا گیا تھا۔قرضوں کی معافی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ قوانین کے مطابق پبلک سیکٹر بینکوں کو اپنی پالیسیوں کے مطابق میرٹ پر ناقابل واپسی قرضوں کو معاف کرنے کا اختیار ہے۔اسٹیٹ بینک کے ترجمان نے کہا کہ 8 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جاری کردہ فیصلے میں بینکوں کے لئے کسی قسم کی واضح ہدایت نہیں، عدالتی حکم میں بینکوں کو قرض کی وصولی قانون کے مطابق کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

بینک آف پنجاب نے اپنے موقف میں کہا کہ قرضوں کی معافی کا تاثر بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، بینک اور قرض دار کے درمیان معاہدے کے مطابق اصل رقم معاف نہیں کی جاتی بلکہ مارک اپ اور مختلف دیگر چارجز کتم کئے جاتے ہیں۔بینک آف پنجاب کے ترجمان نے کہاکہ قرض دار کو اس قسم کی کوئی بھی سہولت تمام قواعد اور ضابطوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی دی جاتی ہے۔