شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی بریت کا معاملہ، اٹارنی جنرل آفس کا نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ

نظرثانی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی، اٹارنی جنرل آفس نے سپریم کورٹ سے اظہار تشویش کیلیے خط کا ڈرافٹ تیار کرلیا

muhammad ali محمد علی منگل 18 اکتوبر 2022 23:12

شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی بریت کا معاملہ، اٹارنی جنرل آفس ..
اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 18 اکتوبر 2022ء ) شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی بریت کا معاملہ، اٹارنی جنرل آفس کا نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے 10 سال قبل کراچی میں قتل کر دیے جانے والے نوجوان شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ جتوئی کو منگل کے روز بری کر دیے جانے کے بعد اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔

دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل آفس نے شاہ رخ جتوئی کی بریت کیخلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹارنی جنرل آفس نے سپریم کورٹ سے اظہار تشویش کیلیے خط کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے، خط میں اٹارنی جنرل آفس نے موقف اختیار کیا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کی بریت کےفیصلے سے قبل اٹارنی جنرل آفس سے رائے طلب نہیں کی گئی، جبکہ سپریم کورٹ اس معاملے کو پہلے ہی اہم آئینی معاملہ قرار دے چکی ہے، اہم آئینی معاملات پر پہلے بھی اٹارنی جنرل کی رائے طلب کی جاتی رہی ہے۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل آفس پہلے ہی قرار دے چکا ہے کہ یہ معاملہ دہشتگردی کا ہے، جبکہ سپریم کورٹ بریت فیصلے میں دہشتگردی جرائم پر عدالتی فیصلوں سے ہٹ کر نتیجے پر پہنچی ہے، سمجھوتے، فساد فی الارض اور دیگر معاملات میں اس کیس پر نظر ثانی بنتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ منگل کے روز سپریم کورٹ میں شاہ زیب قتل کیس سے متعلق ملزمان کی اپیلوں پر سماعت ہوئی،جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزم شاہ رخ جتوئی اور دیگر ملزمان کو بری کر دیا۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ فریقین میں پہلے ہی راضی نامہ ہو چکا ہے۔ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں دیا تھا۔قتل کے واقعہ کو دہشت گردی کا رنگ دیا گیا۔ یاد رہے کہ 25 دسمبر 2012 کو درخشاں تھانے کی حدود میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو بہن کی شادی سے گھر واپسی پر کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں قتل کیا گیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مقدمے کا از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا تھا۔ٹرائل کورٹ نے شاہ زیب قتل کے ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ نواز سجاد،غلام مرتضی کو بھی سزائے موت سنائی تھی۔سندھ ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ تبدیل کرکے عمر قید سنائی تھی۔

شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی تاہم 11 نومبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا۔ملزمان نے عمر قید کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں اور سپریم کورٹ میں قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے شاہ رخ جتوئی کی سزا کیخلاف اپیل سماعت کیلئے مقرر کی گئی تھی،عدالت نے فریقین اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کر رکھے تھے،شاہ رخ جتوئی نے سندھ ہائی کورٹ کا عمر قید کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

یہ بھی خیال رہے کہ شاہ زیب خان قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کے اسپتال میں رہنے کے انکشاف کے بعد سندھ کی دیگر جیلوں میں مزید بااثر قیدیوں کا گھروں پر رہنے کا انکشاف ہوا تھا۔ کراچی اور سندھ کی دیگر جیلوں کے قیدی بھی علاج کے نام پر سالہا سال مزے لیتے رہے،مزید با اثر قیدیوں کا بیماری کے بہانے گھروں پر رہنے کا انکشاف ہوا تھا۔ جبکہ شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی کو مرض کے بہانے اسپتال میں رکھا گیا تھا جس کی تفصیلات سامنے آئی تھیں۔ شاہ رخ جتوئی کو سندھ حکومت کی جانب سے جیل سے نکال کر ہسپتال لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔