پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کا تاریخی پس منظر

DW ڈی ڈبلیو بدھ 21 دسمبر 2022 20:20

پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کا تاریخی پس منظر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 دسمبر 2022ء) اس صورتحال سے ملک کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ مرکز اور پنجاب کے درمیان کشیدگی ہے۔ وفاقی حکومت کو نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ، ایم کیو ایم اور دوسری چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے بلکہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ بھی وفاقی حکومت کے پیچھے ہی نظر آتی ہے۔

ڈی ڈبلیو نے اپنے قارئین کے لیے مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کو تاریخیپس منظر میں پیش کرنے کے لیے مختلف مبصرین اور مورخین سے بات چیت کی۔

مرکز اور وفاق کی تاریخی کشیدگی

کئی مورخین کا کہنا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہی مرکز اور صوبوں کے درمیان نا چاقی شروع ہوگئی تھی۔ اس وقت کے مشرقی بنگال اور کراچی کے درمیان، جو اس وقت دارالحکومت تھا، زبان کے حوالے سے جو تنازعہ شروع ہوا، اُس میں اس وقت حدت آئی جب بانی پاکستان نے اردو کو قومی زبان قرار دیا۔

(جاری ہے)

پاکستان میں مشترکہ مفادات کی کونسل سیاسی مفادات کے نرغے میں

لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' مرکزی حکومت میں افسر شاہی کے ایسے افراد تھے، جن کا تعلق موجودہ پاکستان سے نہیں تھا بلکہ وہ ہندوستان کے علاقے اتر پردیش یا دوسرے دوسرے علاقوں سے یہاں آئے تھے۔

اس اردو اسپیکنگ افسر شاہی کے افراد کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں ایک مخصوص قسم کا احساس برتری تھا۔ وہ سندھ، پنجاب، مشرقی بنگال اور دوسرے دوسرے صوبوں کے مسائل کا بہتر انداز میں ادراک نہیں رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں مذہب کی بنیاد پر ہی صرف ملک کو متحد کیا جا سکتا تھا۔ یہ سوچ کراچی میں موجود وفاقی حکومت اور دوسرے صوبوں کی حکومتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی۔

‘‘

ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق بنگال اور پنجاب آبادی کے لحاظ سے افسر شاہی میں اپنا حصہ چاہتے تھے لیکن اردو اسپیکنگ افسر شاہی اپنی کم آبادی کے باوجود سارے اہم عہدے چاہتی تھی۔ ''پھر ان افسران کا رویہ مقامی افراد کے ساتھ بھی مناسب نہیں تھا۔ سندھ میں سندھی مڈل کلاس، جو ہندو کی شکل میں تھی، وہ جا چکی تھی۔ ایک طرف صرف وڈیرے تھے اور دوسری طرف عام سندھی تھے۔

مہاجر بیوروکریٹس کو بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔ اس طرح کے زیادہ تر عہدے اردو اسپیکنگ افراد کے پاس تھے، جو سندھی اور دوسری قوموں کے وزیروں سے بھی مناسب رویہ نہیں رکھتے تھے۔‘‘

مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رسہ کشی

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہپنجاباور مرکزی حکومت میں یہ کشیدگی پہلی دفعہ نہیں ہوئی۔

انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' سب سے پہلے پچاس کی دہائی میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے مبینہ طور پر ایسے عناصر کی پشت پناہی کی جنہوں نے مذہبی بنیادوں پر فسادات کرائے اور ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا گیا۔ ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت مرکز اور پنجاب دونوں میں تھی لیکن پھر بھی ان کے غلام مصطفے کھر، حنیف رامے اور ملک معراج خالد کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے۔

انیس سو اٹھاسی میں جب بے نظیر آئیں، تو پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے۔ آخری کشیدگی دوہزار آٹھ سے تیرہ والی حکومت میں رہی، جس میں مرکز میں پی پی پی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی، جہاں پی پی پی نے گورنر راج بھی لگایا۔‘‘

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان شاہ محمد مری کا کہنا ہے کہ پنجاب اور مرکز کے درمیان موجودہ کشیدگی کا ماضی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

پنجاب میں گورنر راج، سیاسی رسہ کشی تاحال جاری

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی خیبرپختونخوا میں حکومت کو ختم کیا گیا۔ پھر اس کے بعد ملک میں طویل عرصے تک ون یونٹ رہا، جس کے بعد ستر کی دہائی میں جب حکومت بنی تو مرکزی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی حکومت کو ختم کر دیا، جس کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا میں مفتی محمود کی اس وقت کی حکومت نے احتجاجاً استعفٰی دے دیا۔

ان واقعات کی وجہ سے مرکز اور صوبوں میں کشیدگی بڑھ گئی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔‘‘

شاہ محمد مری کے مطابق پنجاب اور اسلام آباد کی موجودہ کشیدگی میں سارے عوامل اندرونی ہیں۔ ''لیکن ستر کی دہائی میں علاقائی اور بین الاقوامی عوامل بھی تھے۔ شاہ ایران نہیں چاہتا تھا کہ بلوچستان میں کوئی قوم پرست حکومت ہو کیونکہ اس سے ایران میں رہنے والے بلوچ قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

قوم پرست کیونکہ کہ روس کے قریب سمجھے جاتے تھے، اس لیے امریکہ بھی ان سے خوش نہیں تھا۔‘‘

سندھ اور مرکز

کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان عبدالخالق جونیجو کا کہنا ہے کہ سندھ میں تین حکومتیں مرکز کی طرف سے تبدیل کی گئیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب کراچی کو دارالحکومت بنایا جارہا تھا اور اس کو سندھ سے الگ کیا گیا، تو اس وقت کے وزیر اعلٰی ایوب کھوڑو نے اس کی مخالفت کی۔

تو جناح صاحب نے ان کی حکومتکو برطرف کر دیا۔ پھر جب پچاس کی دہائی میں ون یونٹ کی بات ہوئی، تو وزیر اعلٰی عبدالستار پیرزادہ نے اس کی مخالفت کی اور ان کی حکومت ختم کردی گئی۔‘‘

عبدالخالق جونیجو کے مطابق نوے کی دہائی میں لیاقت جتوئی کی حکومت کو مرکز نے ختم کیا۔ ''اس حکومت کو امن وامان کے مسئلے پر برطرف کیا گیا تو مرکز نے سندھ کی دو حکومتیں سندھ کے قومیت کے مسئلے پر آواز اٹھانے کے سبب ختم کیں اور ایک کو امن و امان بگاڑنے پر ختم کیا گیا۔‘‘